ایک دوسرے مقام پر ارشا دفرمایا:
﴿ وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً مُّبَارَکاً فَأَنْبَتْنَا بِہٖ جَنَّاتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ۔ وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّہَا طَلْعٌ نَّضِیْدٌ۔رِزْقًا لِّلْعِبَادِ وَأَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُ﴾ [1]
’’اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی اتارا پھر ہم نے اس سے باغات پیداکیئے اور وہ اناج جنکے کھیت کاٹے جاتے ہیں اور کھجور کے اونچے اونچے درخت اگائے کہ ان درختوں کا گابھا اوپر تلے خوب گتھا ہوا ہوتا ہے یہ سب کچھ بندوں کے رزق دینے کیلئے کیا اور اس پانی کے ذریعے ہم نے مری ہوئی زمین کو زندہ کیا،اسی طرح قبروں سے نکلنا ہوگا‘‘
فصل دوم
حساب وجزاء پر ایمان لانا
حساب وجزاء کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو میدان محشر میں دنیا میں اپنے کیئے ہوئے سارے اعمال کا بدلہ ملے گا خواہ ان کے اعمال اچھے ہویابرے، قلیل ہوں یا کثیر کسی بڑے طبقہ کے انسان سے صادرہوں یاچھوٹے سے،مقصد یہ ہے کہ میدان محشر میں انسان کا اسکے کیئے ہوئے دنیوی سارے اعمال پر محاسبہ کیا جائے گا اور اس کے مطابق ہر شخص کو سزا وجزاء ملے گی،یہ ہے حساب وجزاء پر ایمان لانے کا مطلب۔
اب پیش خدمت ہیں دلائل، ثبوت حساب وجزاء پر ہم تین قسم کے ادلہ پیش کریں گے۔
(۱) کتاب اﷲ (ب) سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم (ی) اجماع
|