لہذا اب ہم اختصار سے ان دونوں نظریوں کا جائزہ لیں گے۔
انسان اپنے افعال میں مختا ر ہے مجبو ر نہیں
جبریہ کہتے ہیں کہ جب ساری اشیاء کا علم اﷲ تعالیٰ کو پہلے ہی ہوچکا تھا اورپھر اﷲ تعالیٰ نے ان سب کو آسمان وزمین کی تخلیق سے پچاس ہزار برس قبل لکھ بھی دیا تھا اور پھر سب کام اﷲ کی مشیئت وچاہت کے مطابق ہورہے ہیں تو اس سب کا معنی یہ ہوا کہ انسان کو اپنے افعال پر کوئی قدرت واختیار نہیں ہے اور نہ ہی انسان کے کاموں میں اس کی مشیئت اورچاہت کو کچھ دخل ہے بلکہ وہ تو مجبور محض ہے۔انسان تو وہی کچھ عمل کرے گا جو اس کے مباشرت ِ فعل (کام کے سرانجام دینے) سے پہلے ہی لکھا جاچکا ہے۔اس لئے انسان کو فرائض وواجبات ترک کرنے اور ذنوب ومعاصی کے ارتکاب پر عذاب وسزا نہیں ملنی چاہیئے۔
یہ سب جبریہ کا نظریہ ہے اور اس کا ایجاد کرنے والا جہم بن صفوان ترمذی ہے۔ اس نظریہ پر بحث کرتے ہوئے ’’صاحب الکواشف الجلیہ ‘‘لکھتے ہیں :
فوجہ ذلک ان الجبریۃ ھو اتباع الجھم بن صفوان الترمذی زعیم المعطلۃ مذھبھم أن العبد مجبور علی فعلہ وحرکاتہ وأفعالہ اضطراریۃ کحرکۃ المرتعش والعروق النابضۃ وکحرکات الأشجار فی مھب الریح، وإضافتھا
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ جبریہ وہ جہم بن صفوان کے متبعین ہیں جو ’’معطلہ‘‘ کا قائدتھا،ان کا مذہب یہ تھا کہ بندہ اپنے فعل اور حرکات میں مجبور ہے اور اس کے افعال اضطراری ہیں جیسے مرتعش کی حرکت اور پھڑکنے والی رگوں کی حرکت اور جیسے ہوا چلنے کے وقت درختوں کی حرکت اور ان کاموں کا انتساب مخلوق کی طرف
|