۲۔ دوسری دلیل :
اللہ تعالیٰ کی صفات پر ایمان لانے اور اسے اپنی ان ثابت شدہ صفات سے موصوف ماننے سے مخلوق کے ساتھ اس کی تشبیہ لازم نہیں آتی،کیونکہ عقلاً اس کی ممانعت نہیں کہ خالق کیلئے ایسی صفات ہوں جو اس کی ذات کے ساتھ خاص ہوں اور مخلوق کیلئے ایسی صفات ہوں،جو ان کی ذات کیلئے خاص ہوں تو بتائیے تشبیہ کیسے لازم آئی ؟
صفات کے انکار اور تأویل میں منشأ مغالطہ
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی صفات کو یاتو بالکل ہی نہیں مانتے جیسے جہمیہ اورمعتزلہ جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے کلیۃ ً منکر ہیں یا کچھ صفات کو تو حقیقۃ ً مانتے ہیں اور بعض دوسری صفات کی تأویلیں کرتے ہیں جیسے اشاعرہ جو کہ اللہ تعالیٰ کی صفات حیات،علم، قدرت، سمع وبصر، کلام اور ارادہ کو تو حقیقۃ مانتے ہیں اور ان سات صفات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات جیسے صفت استواء علی العرش، صفت نزول، صفت ید، صفت غضب، رضا،محبت، تعجب، ضحک اور کراہیت وفرح وغیرہ کی تأویلیں کرتے ہیں، تو ان سب کا مقصد تشبیہ سے فرار ہونا ہے مثلاً جہمیہ ومعتزلہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے لئے صفات ثابت کرلیں جیسے حیات،علم، قدرت، سمع وبصر غضب،رضا، کراہیت ومحبت،وغیرہ تو اس سے خالق کی مشابہت مخلوق کے ساتھ لازم آتی ہے، کیونکہ بعینہ یہی صفات مخلوق میں بھی پائی جاتی ہیں،اسی لئے تشبیہ سے بچنے کے لئے ابتدائً ہی سے کہدو کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہی نہیں۔
اور اسی طرح اشاعرہ نے تشبیہ کے ڈر سے سات صفات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات کی تأویلیں کر لیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ا ن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مقصد ومقتضاء ہی تشبیہ کو سمجھا ہے اور یہی ان لوگون کا منشأمغالطہ ہے مثلاً جب بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت
|