Maktaba Wahhabi

204 - 318
مقصد یہ ہے کہ رسالت کا مسئلہ ایک بہت بڑا بوجھ اور بھاری ذمہ داری ہے تو اس کیلئے مناسب شخص چاہیئے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں کو جانچ کر دیکھتاہے کہ کس میں رسالت کی اہلیت ہے ؟جس میں یہ اہلیت پاتا ہے اسکو یہ نعمت عظمی عطاء فرمادیتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔ ﴿ وَإِذَا جَآئَ تْھُمْ آیَۃٌ قَالُوْ ا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّّٰی نُؤْتٰی مِثْل َ مَا أوتِیَ رُسُلُ اللّٰہ اللّٰہ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ ُ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ أَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَاللّٰہ وَعَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَانُوْا یَمْکُرُوْنَ﴾ [1] اور جب انکو کوئی نشانی پہنچتی ہے تو یوں کہتے ہیں کہ ہم ہر گز ایمان نہ لائینگے جب تک خود ہم کو ویسی چیز نہ دی جائے جیسی اللہ کے رسولوں کو دی جا چکی ہے اللہ ہی اپنے پیغام بھیجنے کے محل اور موقع کوخوب جانتا ہے عنقریب ان مجرموں کو خدا کے ہاں ا ن حیلہ سازیوں کی پاداش میں جن کے یہ مرتکب ہوا کرتے تھے، بڑی ذلت اور سخت عذاب سے ہمکنار ہونا پڑے گا۔ ما قبل کے بیان سے صاف معلوم ہواکہ انبیاء ورسل علیھم السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصطفی، مختار، پسندیدہ اور منتخب ہوتے ہیں۔مگر مسلمانو!یہ یاد رکھو کہ انبیاء ورسل علیھم السلام کے اتنے درجہ ومقام اور منازل وکمالات کے با وجود ان میں ر بوبیت و الوہیت کی خصوصیت نہیں پائی جاتی بلکہ بشریت کا اعلی وارفع مقام پاکر انبیاء و رسل علیھم السلام انسان، عبد اور بندے ہی رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اعلی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ان کو عبد ہی سے ذکر کیاہے۔چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
Flag Counter