اپنی طرف سے اس پر تبصرہ کر کے کہتے ہیں ۔
وازانیجا معلوم شد کہ مراد حضرت شیخ جیلانی رحمہ اللّٰہ از مرجیہ بودن اصحاب ابی حنیفہ ثانی شق ست ولا غبار علیہ اگرچہ ارجح از روئے نظر در دلائل ہماں مذہب اہل حدیث ست کہ ایمان عبارت ست از مجموع اقرار و تصدیق و عمل وبہ قال القاضی ثناء اللّٰہ فی مالا بدمنہ فاندفع الاشکال وصفی مطلع الھلال وباللّٰہ التوفیق۔ ص۱۶۵‘ ۱۶۶
حضرت شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی مراد شق ثانی ہے۔ اور اس پر کوئی غبار نہیں ۔ اگرچہ دلائل پر نظر رکھنے سے اہل حدیث کا مذہب ہی راجح ہے کہ ایمان مجموع اقرار اور تصدیق اور عمل کا نام ہے۔ اور قاضی ثناء اللہ صاحب حنفی رحمہ اللہ نے بھی مالا بد منہ میں یہی کہا ہے۔ پس مشکل دور ہو گئی اور ہلال کا مطلع صاف ہو گیا اور توفیق خدا سے ہے۔
فیض ربانی: ہر چند کہ میں سخت گنہگار ہوں ۔ لیکن یہ ایمان رکھتا ہوں اور اپنے صالح اساتذہ جناب مولانا ابو عبداللہ عبیداللہ غلام حسن صاحب مرحوم سیالکوٹی اور جناب مولانا حافظ عبدالمنان صاحب مرحوم محدث وزیر آبادی کی صحبت و تلقین سے یہ بات یقین کے رتبے تک پہنچ چکی ہے کہ بزرگان دین خصوصاً حضرات ائمہ متبوعین سے حسن عقیدت نزول برکات کا ذریعہ ہے۔ اس لئے بعض اوقات خدا تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے کوئی فیض اس ذرہ بے مقدار پر نازل کر دیتا ہے۔ اس مقام پر اس کی صورت یوں ہے کہ جب میں نے اس مسئلہ کے لئے کتب متعلقہ الماری سے نکالیں ۔ اور حضرت امام صاحب رحمہ اللہ کے متعلق تحقیقات شروع کی تو مختلف کتب کی ورق گردانی سے میرے دل پر غبار آگیا۔ جس کا اثر بیرونی طور پر یہ ہوا کہ دن دوپہر کے وقت جب سورج پوری طرح روشن تھا۔ یکایک میرے سامنے گھپ اندھیرا چھا گیا گویا ظلمت بعضہا فوق بعض کا نظارہ ہو گیا معاً خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ حضرت امام صاحب رحمہ اللہ سے بدظنی کا
|