خصوصیت اہل حدیث دربارہ اتباع حدیث
اہل حدیث کے سوائے دوسرے فرقوں میں تعظیم حدیث کے متعلق اتنی کسر رہ گئی کہ ہر ایک نے حدیث نبوی کو اصول شرع سے مان کر اپنے مخصوص مقتدا و امام کے اقوال کو عملاً دو وجہ سے اصول قرار دیا۔ اول یہ کہ اگر کوئی قول کسی وجہ سے مخالف حدیث پڑ گیا تو حدیث کی تاویل کر دی لیکن اس قول کی تائید سے نہیں ہٹے۔ دوئم یہ کہ اگر کسی مقتدا و امام نے کسی ایسی روایت سے تمسک کیا جو عند التحقیق ضعیف بلکہ منکر بلکہ باتفاق محدثین غیر ثابت و بے اصل یا غیر مرفوع ہے تو اس کا حال معلوم ہو جانے پر بھی اس امام کے مقلدین نے اس قول کو نہیں چھوڑا۔ ان سے صاف ظاہر ہے کہ ان لوگوں نے عملی طور پر حدیث کو مرجع شرع نہیں جانا۔ گو اعتقاداً لفظاً حدیث کے قائل ہو گئے ہیں ۔ ایک اور بات بھی ہے کہ ہر فرقے کے متاخرین نے احادیث نبویہ کو ملحوظ رکھنے کے بغیر اپنے اپنے امام و مقتدا کے اقوال کو اصول قرار دے کر ان پر تخریجات و تفریعات کا دروازہ کھول دیا جس سے عام علماء اس وہم میں پڑ گئے کہ یہ تخریجات بھی امام کے قول ہیں اور انہوں نے کتب فقہ کی ہر جزئی کو وحی آسمانی کی طرح سمجھ لیا۔ اس سے بخوبی روشن ہے کہ ائمہ کے اقوال کو حدیث کی طرح اصول قرار دیا گیا۔ اس بحث کو حضرت شاہ ولی اللہ نے حجتہ اللہ میں بالتفصیل ذکر کیا ہے (جلد اول طبع مصر باب حکایتہ حال الناس الخ کے ضمن میں فصل ومما یناا سب ھذا المقام میں ص۱۵۳سے ص۱۶۱ تک)
لیکن اہل حدیث نے اعتقاداً و عملاً سرمو حدیث نبوی سے تجاوز نہیں کیا۔ حدیث صحیح کے ہوتے نہ تو کسی امتی کی مخالفت کی (خواہ وہ کیسا ہی بزرگ و برگزیدہ ہو) پرواہ کی اور نہ کسی ضعیف حدیث پر اپنے احتجاج کی بنیاد رکھی۔ اس کی شہادت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہر فرقہ نے اپنے مذہب کے مخصوص مسائل کو مدون کیا اور ان
|