حکم باغیوں کا حکم ہے اور بعض منکرین ان کے کفر کے بھی قائل ہوئے ہیں ابن منذر کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ ان کی تکفیر پر کوئی اہل حدیث کے موافق ہوا ہو۔
اس عبارت سے ہمارا اصل مقصود تو یہ ہے کہ علامہ شامی شیخ محمد بن عبد الوہاب کو برابر حنبلی قرار دیتے ہیں ۔ اور ہم اہل حدیث سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صاحب شرع کے کسی اور کی طرف نہ منسوب ہیں اور نہ نسبت کو پسند کرتے ہیں ہم تو کہتے ہیں ؎
کسی کا ہو رہے کوئی نبی کے ہو رہے ہیں ہم
اور خود حضرات مقلدین بھی ہم کو از راہ لطف غیر مقلدین ہی کہتے ہیں ۔ پس غیر مقلد کہہ کر شیخ محمد بن عبد الوہاب کا مقلد کہنا ایں چہ ؟
لیکن اس اصل مقصود کے علاوہ دو باتیں اور بھی کہنے کی ہیں ۔ اول یہ کہ علامہ شامی رحمہ اللہ وہابیوں کو باوجود ان کی نسبت سخت امور ذکر کرنے کے کافر کہنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ پس جو لوگ ہم کو وہابی جان کر کافر کہتے ہیں وہ علامہ شامی کی تحریر کو دیکھیں اور خدا سے ڈریں ؎
بروز حشر گر پر سند خسرو را چرا کشتی؟
چہ خواہی گفت قربانت شوم تامن ہمان گوئم
عجب تو یہ ہے کہ جو امور علامہ شامی نے وہابیوں کی طرف منسوب کئے ہیں وہ ہم میں نہ پائے گئے اور نہ ہم میں پائے جاتے ہیں ۔
دوم یہ کہ علامہ شامی نے ان امور کی تحقیقات میں کوتاہی کی اور حقیقت امر پر غور نہیں کیا۔ اور صورت بدنامی کو اپنے دل میں عظیم جان کر بیچارے شیخ محمد بن عبد الوہاب پر کہہ دیا کہ اس نے اور اس کے اتباع نے اپنے مخالفوں کو مشرک قرار دیا۔ اور مسلمانوں اور ان کے علماء کے قتل کو مباح جانا۔ یہ امر علامہ سے غصہ میں لکھا گیا۔ اور دلیل غصہ کی ان کی وہ عبارت ہے جو نجدیوں کے حق میں لکھی ہے۔
حتی کسر اللّٰہ شوکتہم وخرب بلادھم وظفر بھم عساکر
|