Maktaba Wahhabi

477 - 484
حکم دیا گیا۔ میاں صاحب پر بھی مواخذہ ہوا جو صرف مخبروں کی غلط خبر رسانی اور اہلکاروں کی غلط فہمی پر مبنی تھا۔ آپ تا تحقیقات کامل کم و بیش ایک برس تک راولپنڈی کی جیل میں نظر بند رہے۔ بعد تحقیقات کامل معلوم ہو گیا کہ مواخذہ ناجائز ہے۔ اس لئے آپ کو رہا کر دیا گیا۔ جیل میں بھی درس جاری رہا۔ چنانچہ عطاء اللہ نامی طالب علم نے جیل میں صحیح بخاری سبقاً سبقاً پڑھی اور قرآن شریف حفظ کیا۔ حج بیت اللہ: ۱۳۰۰؁ھ میں آپ حج بیت اللہ کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔ آپ کے مخالفین بھی وہاں جا پہنے۔ میاں صاحب نے تین روز منیٰ میں قیام کیا اور شب و روز وہاں وعظ فرمایا۔ جس میں شرک و بدعت سے اجتناب‘ عمل بالحدیث کی ترغیب اور رسومات بد کی اصلاح کا بیان تھا۔ ان وعظوں سے دشمنوں کی آتش عداوت و حسد اور بھڑک اٹھی۔ اس پر رفقاء و خدام نے بمنت و سماجت عرض کیا کہ حضور وعظ بند فرمائیں ۔ مخالفین کی سازش بہت گہری ہو چکی ہے۔ اب جان کی خیر نظر نہیں آتی۔ اس کے جواب میں میاں صاحب نے صاف فرما دیا کہ ’’سنو صاحب! بہت جی چکا۔ اب زندگی کی تمنا نہیں ہے۔ امام نسائی بھی مکہ میں شہید ہوئے تھے۔ اسی حرم میں جہاں میرے قتل کا منصوبہ ہو رہا ہے۔ میں ہر وقت قتل ہونے کے لئے تیار ہوں ۔ مگر تبلیغ سے باز نہ آؤں گا۔‘‘ حج سے فارغ ہونے کے بعد آپ بانتظار قافلہ مدینہ طیبہ مکہ معظمہ میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ مخالفین نے پاشائے مکہ کے ہاں مخبری کرا دی کہ مولوی نذیر حسین معتزلی اور وہابی ہیں ۔ اسی طرح اور بھی بہت سے اتہامات لگائے۔ اس پر آپ کو پاشائی محل میں طلب کیا گیا۔ تین دن تک آپ وہاں رہے اور آپ سے ان تہمتوں کے جواب طلب کئے
Flag Counter