(Practice Makes a Man Perfect)یعنی مشق انسان کو کامل بنا دیتی ہے۔
پس اہل عرب کے حافظے ان میں تحریر کے عام طور پر رائج نہ ہونے اور تمدنی اسباب آسائش کم ہونے اور زیادہ تر قوت حافظہ سے کام لینے اور اس پر پورا اعتماد کرنے کے سبب نہایت قوی تھے اور وہ کسی تحریری بیاض کے محتاج نہ تھے۔
عربوں کی قوت حافظہ:
(۱) عرب نسب کو نہایت عزیز اور بڑے فخر کی بات جانتے تھے۔ قبائل و اشخاص کے نسبی و خاندانی تعلقات باقاعدہ بطور فن سیکھتے تھے۔ لیکن یہ تعلیم و تعلم سب کچھ زبانی ہوتا تھا۔ کوئی تحریری کورس (نصاب) مقرر و مدون نہیں تھا۔ جن لوگوں کو اس فن میں کامل مہارت اور پوری لیاقت و قابلیت ہوتی تھی ان کو نسابہ کہتے تھے۔[1]یہ لوگ کئی کئی پشتوں تک مختلف قبائل کے آبا و اجداد کا سلسلہ مع ان کی مختلف شاخوں کے برزبان یاد رکھتے تھے۔ اور کسی شخص کا اصیل (آزاد و شریف) یا مولے (آزاد شدہ غلام) یا وضیع و کمینہ ہونا اور اس کا کسی خاص قوم و خاندان میں سے ہونا یا نہ ہونا انہی نسابہ (نسب دان) لوگوں کی شہادت پر موقوف تھا۔
(۲) عربوں کو اپنی زبان پر بہت ناز و فخر تھا وہ اپنے آپ کو عرب (فصیح خوشگو صاف زبان والے) جانتے تھے اور دوسرے ملک والوں کو عجم (گونگے بے زبان حیوان) سمجھتے تھے۔ ان کی اس مایہ ناز زبان دانی کے کمال کی صورت بھی یہی تسلیم کی جاتی تھی کہ شعراء عرب کے اشعار اور فصحاء کے خطبے (لیکچر) کثرت سے بر زبان یاد ہوں چنانچہ زمانہ جاہلیت کے اشعار و قصائد انہی باکمال لوگوں کے حافظہ کے طفیل زمانہ تدوین علم تک برابر محفوظ چلے آئے اور آج وہ ہمیں کتابی صورت میں نظر آرہے ہیں ۔
جس طرح آج کل وفور علم و وسعت معلومات کا مدار کثرت مطالعہ پر ہے اسی طرح ان ایام میں قوت حافظہ کی جودت پر تھا۔
(۳) اس دستور کا اثر بعد کے زمانوں تک بھی رہا اور جب عہد اسلامی میں حدود سلطنت
|