عمل تھا اور ان کے مقابلہ میں اور کچھ نہ سنا جاتا تھا اور انہی کو حجت شرعی مانا جاتا تھا۔ جن تابعین کا ذکر اوپر آچکا ہے ان کے علاوہ دیگر ائمہ تابعین بھی ہیں مثل ابو بکر بن محمد بن حزم المتوفی ۱۲۰ھ اور خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ ۱۱۰ھ اور امام زہری رحمہ اللہ المتوفی ۱۲۴ھ اور فقہائے سبعہ مدینہ جن کے اسمائے گرامی اس نظم میں ہیں ۔
اذا قیل من فی العلم سبعۃ ابحر
روایتہم لیست عن العلم خارجۃ
فقل ھم عبید اللّٰہ عروۃ قاسم
سعید ابو بکر سلیمان خارجۃ
یہ ساتوں بزرگ مدینہ طیبہ میں ایک ہی زمانے میں تھے۔ اکثر ان میں سے ۹۴ھ میں فوت ہوئے تو اس سال کا نام ہی ’’عام الفقہاء رحمہ اللہ ‘‘ پڑ گیا۔ آخر باری باری ۱۰۶ ھ یا ۱۰۷ھ تک تمام زندگی کی صف لپیٹ کر رخصت ہو گئے (رحمہم اللہ اجمعین)۔ یہ سب مذکورہ بالا امام سنت نبوی کے عاشق تھے۔ اور سوائے قرآن و حدیث کے کسی اور شے کی طرف التفات نہ کرتے تھے۔ ان کی زندگی کے واقعات اور ان کے پاک کلمات اس بات کے شاہد ہیں ۔
زمانہ اتباع تابعین:۔
زمانہ تابعین کے بعد اتباع تابعین کا زمانہ آیا۔ اس عہد تک امت میں اختلاف ہوتے ہوتے بہت سے فرقے بن چکے تھے اور ایک انقلاب عظیم ہو چکا تھا۔ خیالات میں آزادی اور رائے و قیاس کی پیروی رائج ہو چکی تھی بہت سے لوگ صحابہ کے طریق سے اکھڑ کر دیگر راہوں میں جا چکے تھے جن کا کچھ ذکر سابقا ہو چکا ہے۔ سنت و بدعت میں ایسا اختلاط ہو چلا تھا کہ اگر محدثین شکر اللہ سعیہم نہ اٹھ کھڑے ہوتے اور کمر ہمت نہ باندھ لیتے تو یہود و نصاری کی طرح عہد نبوت کے دین کا پتہ لگانا سخت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں ائمہ حدیث نے احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صفحات سینہ سے صفحات کاغذ پر نقل کرنا شروع کر دیا اور امت کو بدعت کے سیلاب سے بچا لیا۔ جزاھم اللّٰہ عنا خیر الجزاء
|