Maktaba Wahhabi

413 - 484
کان مالک یتحفظ من الیاء و التاء فی حدیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم (تذکرہ جلد اول صفحہ۱۹۱) امام مالک رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی ی اور ت (کے فرق) تک خوب یاد رکھتے تھے۔ آپ کے استاد‘ امام زہری رحمہ اللہ نے ایک مجلس میں چالیس سے کچھ اوپر حدیثیں بیان کیں ۔ امام ربیعہ نے دوسرے دن آپ سے ذکر کیا کہ یہاں (مدینہ میں ) ایک ہے جو وہ (تمام حدیثیں جو آپ نے کل بیان کی تھیں (پوری) سنا دے۔ امام زہری نے دریافت کیا کہ وہ کون ہے؟ امام ربیعہ نے کہا ابن ابی عامر (یعنی امام مالک رحمہ اللہ ) امام زہری نے کہا اسے لے آؤ۔ امام مالک رحمہ اللہ نے وہ چالیس حدیثیں سنا دیں ۔ تو امام زہری کہنے لگے کہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص میرے سوا ایسا یاد رکھنے والا باقی ہو گا۔[1] انتخاب مشائخ میں احتیاط: اصول حدیث میں دو اصطلاحی لفظ ہیں تحمل اور ادا ’’تحمل‘‘ شیخ سے حدیث کے سیکھنے کو اور ادا اپنے شاگردوں میں بیان کرنے کو کہتے ہیں ۔ عام طور پر محدثین ضعیف و قوی ہر دو طرح کے راویوں سے روایت کرتے رہے ہیں (اور ایسے راوی تھوڑے ہیں کہ ان سے تحمل ترک کیا گیا ہو) پھر روایت یا تصنیف میں کسی نے تو صحاح روایات کو چھانٹ کر لکھا مثلاً حضرات شیخین رحمہ اللہ اور کسی نے ضعیف کا ضعف ذکر کر دیا مثلاً امام ترمذی رحمہ اللہ اور کسی نے قوی و ضعیف کو ملا کر لکھا اور تنقید کسی اور کے لئے چھوڑ دی مثلاً امام ابن ماجہ رحمہ اللہ ۔ لیکن امام مالک رحمہ اللہ کی شان ان سب سے نرالی ہے۔ آپ کو اداء یا روایت کے وقت چھانٹنے اور ضعیف کا ضعف ذکر کرنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ کیونکہ آپ تحمل کے وقت ہی اس بات کی رعایت و احتیاط رکھ لیتے تھے کہ صرف ان مشائخ سے اخذ حدیث کریں جن کی ثقاہت و عدالت اور اتقان و فقاہت میں کلام نہ ہو چنانچہ محدث ابن حبان رحمہ اللہ ’’اپنی کتاب الثقات‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
Flag Counter