کتب حدیث کا اور سنت نبویہ کا بقا ہے۔ (جزاہم اللّٰہ عناخیر الجزا)
ان کی تصانیف زندہ گواہ ہیں کہ نصوص شرعیہ کی حفاظت کے بعد ان کے صحیح محامل کے سمجھنے اور ان کو براہ راست اصول قرار دے کر ان سے مسائل استنباط کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوئے؟ گویا ان کے واقعات نے اس یکطرفہ اجماع کو کہ وحی آسمانی کی طرح اجتہاد کا دروازہ بھی بند ہو چکا ہے غلط ثابت کر دیا۔
وجوہ اشاعت تقلید:
(۲) حضرت شاہ صاحب نے حجتہ اللہ اور انصاف میں تقلید کے شائع ہونے کی دیگر وجوہ بھی بیان کی ہیں ۔ طالب تفصیل ان کتابوں کا مطالعہ کر لے ہم اس مقام پر بعض کا ذکر کرتے ہیں ۔
ہم سابقاً ذکر کر آئے ہیں کہ خلیفہ مامون کے کھلے دربار میں علمی مناظرے ہوتے تھے۔ اور وہ سب عموما عقلیات و علم کلام کے متعلق تھے۔ بعد کے زمانوں میں یہ افتاو فقہی مسائل میں منقلب ہو گئی اور خلفاء کے سامنے امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے خلافیات میں بحث ہونے لگی ۔ پس شاہی دربار کی اس مجلس میں شمولیت حاصل کرنے اور اس علمی گفتگو میں حصہ لینے کے لئے ضروری تھا کہ ان دونوں اماموں میں سے کسی ایک کے مسلک میں منسلک ہو کر رہیں ۔
(۳) اس کے ساتھ اس وجہ کو بھی ملا لینے سے یہ بات اور صاف ہو جاتی ہے۔ کہ قرون اولیٰ کے لوگ دنیا سے معرض ہونے کے سبب حکام کی صحبت سے مجتنب رہتے تھے۔ جیسا کہ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے واقعات سے ظاہر ہے۔ اس اعراض و بے پرواہی کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ خلفاء و حکام اپنے امور میں ان پاک نفوس کی طرف خود رجوع کرتے تھے۔ لیکن بعد زمانہ کے سبب استغناء و تعفف میں کمی ہوتی گئی تو علماء بجائے مطلوب ہونے کے طالب ہو گئے اور حکام کی صحبت اور ان سے رسوخ حاصل کرنے میں اعزاز و اکرام سمجھنے لگے اور یہ علم و عمل کی کمی کا نتیجہ تھا۔ تو اب ضرور تھا کہ جاہ طلبی کے لئے کسی مسلم امام و بزرگ کی طرف منسوب ہو کر رسوخ حاصل کریں اسی لئے ان لوگوں کو جو مقربین احکام ہوتے....’’صدر الشریعۃ‘‘ اور ’’تاج الشریعۃ‘‘
|