اپنے بزرگوں کا بتایا ہوا قاعدہ نہ ٹوٹے۔ اللہم اغفر
امر اول۔ نفس مسئلہ کی تحقیق:
امر اول کا بیان صاحب نور الانوار کے لفظوں میں یوں ہے۔
والراوی ان عرف بالفقہ والتقدم فی الاجتہاد کالخلفاء الراشدین والعبادلۃ کان حدیثہ حجۃ یترک بہ القیاس وان عرف بالعدالۃ والضبط دون الفقہ کانس وابی ہریرۃ ان وافق حدیثہ القیاس عمل بہ وان خالفہ لم یترک الا بالضرورۃ (ص۱۷۸)
’’راوی حدیث اگر فقہ اور اجتہاد میں شہرت و تقدم رکھتا ہو۔ جیسے خلفاء راشدین اور عبد اللہ بن مسعود اور عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہم) تو ایسے راوی کی حدیث حجت ہو گی۔ اس حدیث کے ساتھ قیاس متروک کیا جائے گا۔ اور اگر راوی میں عدالت اور ضبط ہو مگر فقہ نہ ہوجیسے انس رضی اللہ عنہ خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہما) (جو غیر فقیہ تھے) ایسے راوی کی حدیث اگر قیاس کے موافق ہو گی تو اس پر عمل کیا جائے گا اور اگر مخالف ہو گی تو قیاس نہ چھوڑا جائے گا سوائے ضرورت خاص کے۔‘‘
ناظرین غور کریں کہ اس شرط کا نتیجہ کیسا بھیانک ہے جو علمائے اصول نے خود ہی بتا دیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جیسے خادمان خاص کو بے فقہ کہہ کر کتنی حدیثوں کو قیاس مجتہد کے مقابلہ میں مسترد کیا گیا ہے۔ انا للہ۔
امر دوم : امر دوم کا بیان اس طرح ہے کہ یہ اصول یعنی اشتراط فقہ راوی امام ابو حنیفہ کا وضع کیا ہوا نہیں بلکہ عیسی بن ابان کا ہے جو امام محمد رحمہ اللہ کے شاگرد تھے۔[1]
چنانچہ صاحب نور الانوار میں فرماتے ہیں ۔
ثم ھذہ التفرقۃ بین المعروف بالفقہ والعدالۃ مذھب عیسی بن
|