اس نیکی کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ قبول کرے گا اس کو اس شخص سے اور اس کو اس پر ثواب دے گا اور جو برائیاں شرک اور کفر کے سوا ہوں اور ان کے کرنے والے نے ان سے توبہ نہ کی ہو۔ حتی کہ وہ ایمان کی حالت میں مر جائے۔ تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ہے چاہے اسے دوزخ سے عذاب کر لے (اور پھر نکال لے) اور چاہے اسے معاف کر دے۔ اور بالکل دوزخ کا عذاب نہ دے۔‘‘
تبصرہ:۔ اس عبارت میں حضرت امام صاحب موصوف نے معتزلوں اور خوارج کے مسائل سے بھی اختلاف کیا ہے اور مرجیوں کا نام لے کر ان سے بیزاری ظاہر کی ہے اور واضح ہے کہ جو شخص کسی فرقہ میں داخل ہو وہ اس فرقہ کا نام لے کر اس کی تردید نہیں کرتا۔ اس عبارت میں آپ نے خالص اہل سنت کے مسائل لکھے ہیں ۔ جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ۔ اور صحابہ رضی اللہ عنہ اور خیار تابعین ان پر کاربند تھے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ لکھتے وقت جزا سزا کے متعلق آیات و احادیث کا نقشہ آپ کے سامنے رکھا تھا۔ سب امور کو ملحوظ رکھ کر نہایت احتیاط و اعتدال کی باتیں لکھی ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اعمال پر جزا سزا کے تر تب کے قائل تھے اور نجات کلی (بحسب وعدہ الہیہ) کے لئے اعمال صالحہ کا اعتبار کر کے اعمال سیئہ کو موجب عذاب جانتے ہیں ۔ لیکن ان کی معافی اور ان پر عذاب کا فیصلہ سپرد باری تعالیٰ کرتے ہیں ۔ سوائے کفر و شرک کے کہ ان کی معافی شرعاً سوائے اس دنیوی زندگی میں توبہ کرنے کے نہیں ہو سکتی اور یہ سب باتیں آیت إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ اور اس قسم کی دیگر آیات و احادیث سے ثابت ہیں ۔ عبارت مذکورہ بالا سے تھوڑا آگے آپ ایمان کی بحث میں فرماتے ہیں ۔
ایمان کی بحث:
والایمان ھوالا قرار والتصدیق وایمان اھل السماء والارض لا یزید ولا ینقص من جھۃ المومن بہ ویزید وینقص من جھۃ الیقین
|