متعلق کسی کے حق میں وصیت کی تھی یا نہیں چنانچہ صحیح بخاری میں ہے۔
عن ابراھیم عن الاسود قال ذکروا عند عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا ان علیا کان وصیا فقالت متی اوصی الیہ وقد کنت مسندتہ علی صدری او قالت حجری فدعا بطست فلقد انخنث فی حجری فما شعرت انہ مات فمتی اوصی الیہ[1]
ابراہیم نخفی رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ اسود سے روایت کرتے ہیں کہ اسود نے کہا (کوفہ کے) لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس ذکر کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ وصی تھے؟ تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس وقت ان کے حق میں وصیت کی تھی؟ (وفات کے وقت تو) آپ میرے سینے سے ڈھاسنا (تکیہ) لگائے ہوئے تھے پس آپ نے (پیشاب کرنے کے لئے) طست طلب کیا۔ آپ کی روح (پاک) تو اس طرح چپکے سے قبض ہو گئی کہ مجھے بھی آپ کی موت کا پتہ نہ لگا تو ان کے لئے وصیت کب کی تھی؟ (یعنی نہیں کی)
اس حدیث کو امام بخاری کے علاوہ امام نسائی اور امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔
حضرت عائشہ کی وفات ۵۷‘ ۵۸ ہجری میں ہوئی۔ ان سے اسود بن یزید تابعی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں یہ کوفی ہیں ۷۴ھ یا ۷۵ھ میں فوت ہوئے پھر ان سے ان کے بھانجے ابراہیم نخفی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں ۔ ان کی بابت پوچھنے کی ضرورت نہیں یہ امام ابو حنیفہ کے استاد حماد بن ابی سلیمان کے استاد ہیں یہ بھی کوفی ہیں ۹۶ ہجری میں فوت ہوئے۔
۲۔ اسی طرح صحیح بخاری میں طلحہ بن مصرف تابعی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ ابن ابی اوفی صحابی سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی تو حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں ۔ الحدیث۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن ابی اوفی صحابی[2]اور طلحہ بن مصرف تابعی[3]اور ان کے نیچے
|