جس نے کوئی ایسی رائے نکالی جو نہ تو کتاب اللہ میں ہے اور نہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی شہادت ہے تو معلوم نہیں کہ جب وہ خدا کے سامنے ہو گا تو کس حال پر ہو گا۔
غرض اسی قسم کی روایات کثرت سے ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ عہد صحابہ میں سوائے قرآن و حدیث کے کوئی شے واجب الاتباع نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ اس کے مقابل میں رائے و قیاس کو بہت برا جانتے تھے۔ واللہ الہادی
زمانہ تابعین میں بھی صرف اتباع وحی:۔
عصر صحابہ کے بعد تابعین کا زمانہ ہے۔ اس میں بھی قرآن و حدیث کے ہوتے دوسری چیز پر عمل نہیں ہوتا تھا اور کسی دوسرے کے قول و فعل کو بلا سند حجت نہیں مانا جاتا تھا چنانچہ سنن دارمی میں ہے۔
عن الاوزاعی قال کتب عمر بن عبد العزیز انہ قال لا رائ لاحد فی کتاب اللّٰہ وانما رأی الائمۃ فیما لم ینزل فیہ کتاب ولم تمض فیہ سنت من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا رأی لاحد فی سنۃ سنہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (دارمی ص۶۲)
بروایت امام اوزاعی منقول ہے کہ خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے فرمان جاری کیا کہ خدا کی کتاب (قرآن) میں کسی کی رائے کی گنجائش نہیں ہے اور اماموں کا ’’قیاس‘‘ صرف اس بات میں جائز ہے جس کے متعلق نہ تو قرآن میں کوئی حکم نازل ہوا ہو اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سنت ثابت ہو اور جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کر دی ہو اس میں کسی کی رائے کا اعتبار نہیں ہے۔
خلیفہ عمر بن عبد العزیز کا یہ قول اصل میں قرآن شریف کی آیت سے ماخوذ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا (الاحزاب پ۲۲)
|