تقلید کا شیوع اور اس کے وجوہ
ان تین نیک زمانوں کے بعد ایسا زمانہ آیا کہ بموجب مضمون حدیث مذکور کے خیانت و کذب کی عام اشاعت ہوئی۔ خود رائی اور اتباع ہوا کی کوئی حد نہ رہی۔ نصوص سے بے پرواہی کر کے جو جی میں آیا اسے مذہب قرار دیا۔ اور ڈیڑھ اینٹ کی جدا مسجد بنا کر امت کو کئی فرقوں میں بانٹ دیا۔ اس زمانہ میں سنت و بدعت کا اختلاط ایسا ہو چلا تھا اور سچی اور جھوٹی اور صحیح و ضعیف روایتوں میں ایسی بے تمیزی ہو چلی تھی کہ اگر محدثین (شکر اللہ مساعیہم) نہ اٹھ کھڑے ہوتے اور احیائے سنت اور رد بدعت کے لئے کمر ہمت نہ باندھ لیتے تو یہود و نصاری کے دین کی طرح عہد نبوت کے دین کا پتہ لگانا سخت مشکل ہو جاتا۔ اسی زمانہ میں قرآن و حدیث کے ساتھ غیروں کے فتاوی بھی جوڑے جانے لگے تھے۔ حتی کہ اسی بے جوڑ جوڑ سے ائمہ کے اقوال کو اصول مان کر ان پر تفریعات و تخریجات شروع ہو گئیں جس سے ادنی و اوسط طبقے سے تو حفظ و روایت نصوص اٹھ گئی۔ اور اعلی طبقہ سے ملکہ اجتہاد و قوت استنباط معدوم ہو کر تقلید کی تخم ریزی ہو گئی اور اس کا درخت ایسا پھولا پھیلا کہ سلطنت کے ساتھ سارے جہان کو سائے میں لے لیا۔ دوسروں کے اقوال پر قناعت ہونے لگی اور قرآن و حدیث میں خود نظر کرنی متروک ہو گئی۔ چنانچہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ [1] (المتوفی ۷۴۷ھ) جو ساتویں آٹھویں صدی کے مشہور امام اور مسلم کل مورخ و محدث ہیں اپنی بے مثل کتاب تذکرۃ الحفاظ میں طبقہ ثامنہ کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں ۔
|