Maktaba Wahhabi

405 - 484
اور اس کے حوالجات کثرت سے نقل کرتے ہیں ۔ اسی طرح کشف الظنون میں حاجی خلیفہ رحمہ اللہ نے کہا ومغازیہ اصح المغازی کذافی المقفی[1]یعنی ان کی کتاب المغازی سب مغازی سے زیادہ صحیح ہے۔‘‘ امام موسیٰ بن عقبہ ۱۴۱ھ؁ میں فوت ہوئے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کو پانچویں طبقے میں رکھا ہے۔ جنہوں نے ایک یا دو صحابہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا لیکن ان سے ان کی سماعت حدیث ثابت نہیں ہوئی۔ (۹) ربیع بن صبیح رحمہ اللہ :۔ بصرہ کے عابدوں میں سے تھے۔ باجود اس کے غازی و مجاہد تھے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کان الربیع ابن صبیح غزاء یعنی ربیع بن صبیح بڑے غازی تھے۔ چنانچہ ۱۶۰ھ؁ میں غزوہ سندھ میں [2]علاقہ سندھ میں فوت ہوئے۔ ابن سعد نے (طبقات میں ) کہا کہ علاقہ سندھ میں غزا کے لئے نکلے تو سفر سمندر ہی میں فوت ہو گئے اور جزیرہ میں دفن کئے گئے۔[3]رحمہ اللہ و ایانا۔ آپ کو حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اور حمید طویل اور ثابت بنانی و غیرہم تابعین سے روایت ہے۔ اور آپ سے حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ اور حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ اور عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ اور وکیع اور ابوداؤد طیالسی رحمہ اللہ وغیرہم محدثین نے روایت کی۔ حضرت ربیع فن حدیث کے حافظ نہ تھے۔ بلکہ محدثین کے نزدیک ان کی روایت قابل احتجاج بھی نہیں ۔ لیکن ہم نے ان کو اول تو اوپر کی خصوصیت کے لحاظ سے یہاں درج کیا ہے۔ دیگر اس لئے کہ اہل بصرہ میں سے یہ پہلے ہیں جنہوں نے تدوین حدیث کی طرح ڈالی۔ چنانچہ حافظ صاحب تہذیب التہذیب میں فرماتے ہیں ۔ وقال ابن حبان کان من عباد اھل البصرۃ و زھاد ھم و کان یشبہ بیۃ باللیل ببیت النحل من کثرۃ التہجد الا ان الحدیث لم یکن
Flag Counter