Maktaba Wahhabi

62 - 484
بکھر گیا۔ اور امت مرحومہ کا تمام نظام بگڑ گیا۔ فانا للّٰہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انتخاب: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مہاجرین و انصار کی ایک جماعت کے سخت اصرار پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انکار کرنے کے بعد خلیفہ ہونا منظور کر لیا۔ جب آپ بیعت و خطبہ خلافت سے فارغ ہو کر گھر تشریف لے گئے۔ تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ نے آکر آپ سے کہا کہ ہم نے آپ سے حدود شرعیہ کے قائم کرنے کی شرط پر بیعت کی ہے۔ پس آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں پر حدود شرعیہ قائم کریں ۔ آپ نے نہایت متانت سے جواب دیا کہ ابھی مجھے اس بات پر پوری قدرت نہیں ۔ ذرا شورش فرو ہو جائے تو معاملات پر غور کیا جائے۔ پس اسی بات پر بگاڑ ہو گیا۔ اور بنی امیہ مدینہ طیبہ چھوڑ کر دمشق اور مکہ معظمہ کو بھاگنے لگے حتی کہ حضرت نعمان رضی اللہ عنہ بن بشیر صحابی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خون آلود کرتہ جس میں آپ شہید ہوئے تھے اور آپ کی زوجہ محترمہ کی کٹی ہوئی انگلیوں کو لے کر چلاتا اور فریاد کرتا دمشق جا پہنچا۔ دمشق میں اس دل سوز اور جگر دوز منظر سے کہرام مچ گیا۔ یہ لوگ عثمانی تو تھے ہی۔ سب خون کے انتقام پر تل گئے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں حضرت معاویہ کو اپنا امیر بنا لیا۔ ادھر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ مدینہ شریف سے مکہ مکرمہ میں تشریف لے گئے۔ تین گروہ: اس وقت امت مرحومہ تین جماعتوں میں منقسم ہو گئی (اول) عثمانی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے انتقام کے طالب تھے۔ یہ سب بنی امیہ اور شامی اور مکی لوگ تھے۔ اور دیگر بھی جو ان کے طرف دار تھے۔ مثلاً مصر‘ بصرہ اور کوفہ کے بہت سے لوگ۔ ان سب کے لیڈر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرات طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ تھے (دوم) علوی یا شیعہ (جماعت) علی۔ سبائی انہی میں مدغم ہو گئے‘ کیونکہ عثمانیوں کے مدمقابل تو یہی تھے (سوم) غیر جانبدار کہ نہ ادھر شامل ہوئے نہ ادھر بعض تو خانہ نشین ہو گئے۔ اور بعض دیہات و صحرا میں چلے گئے انہوں نے اسے ایک ملکی نزاع اور امت مرحومہ میں فتنہ سمجھا۔ اور
Flag Counter