کتابوں کو اپنے مذہب کی کتابیں قرار دیا۔ اور ان کے خلاف دوسری کتابوں کو دوسرے مذاہب سے منسوب کیا۔ لیکن اہل حدیث نے نہ تو کوئی مخصوص مسائل الگ کئے‘ اور نہ ان میں تصنیف کر کے ان کتابوں کو اپنے فرقہ کی مخصوص کتابیں قرار دیا بلکہ ان کی ساری ہمت جمع احادیث نبویہ اور ان کی شرح و بیان اور تنقید و پڑتال میں خرچ ہوئی گویا انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد یہی سمجھا کہ حدیث نبوی کی خدمت انجام دیں ۔ اس کی اشاعت کریں ۔ اقوال الرجال کی بجائے اقوال الرسول کو رواج دیں اور ہر ایسی کتاب سے الگ رہیں جس میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پائی جائے۔ ہمارے اس بیان پر کیا کوئی ہمیں بتا سکتا ہے؟ کہ اہل حدیث نے فلاں تصنیف ایسی کی ہے جو انہی سے مخصوص ہے اور دیگر فرقے بیحثیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے اور باوجود حدیث نبوی کو اصول شرع تسلیم کرنے کے اس پر عمل نہیں کر سکتے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سعادت مند‘ صاحب عقل و دانش کو اہل حدیث کی طرف مائل کرے گا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی تعظیم و تعمیل جیسی اس فرقہ کی نظر میں ہے کسی اور کی نظر میں نہیں ہے۔ بس یہی امر اہل حدیث کا خصوصی و امتیازی نشان ہے جس نے ان کو حدیث نبوی کی طرف منسوب کرایا اور اس کا خادم خاص بنا دیا۔ اللھم احینی فیہم وامتنی فیہم واحشرنی فی زمرتھم ان کے خلاف ہم ہر فرقے کی مخصوص کتاب کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ وہ اسی فرقے کی کتاب ہے دوسرے مسلمانوں کو اس سے کوئی خاص تعلق نہیں ۔ حتی کہ اگر ان میں سے کسی نے احادیث نبویہ کو بھی جمع کیا ہے تو بس اپنے دائرے کی حد بندی کے لئے۔ جو احادیث صحیحہ اپنے مذہب کے خلاف پائیں ان کی تو تاویل کر دی اور اپنے مذہب کے موافق احادیث ضعیفہ اور آثار موقوفہ کی ایسی بھر مار کر دی کہ گویا ان لوگوں کے لئے جو علم حدیث میں فردِ مایہ ہیں روایات کا دریا بہا دیا ہے ملاحظہ ہو شرح معانی الاثار للطحاوی۔
غرض اس حیثیت سے کہ سنت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امام و مقتدا بنایا جائے علم حدیث
|