مجسمہ یا کرامیہ:
حکومت کے اثر اور نئے علوم میں رسوخ اور دیگر مذاہب سے مناظرات کرنے کے سبب معتزلوں کا گروہ بہت زبردست ہوتا گیا حتی کہ دوسری صدی کے بعد خلیفہ مامون ہی کے عہد میں ایک شخص ابو عبد اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن کرام (ابن کرام) سجستانی ظاہر ہوا۔ جس نے معتزلوں کی ضد میں صفات الہیہ کو ایسے طور پر ثابت کرنا شروع کیا کہ اس کی رو سے آخر کار (معاذ اللّٰہ ثم معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ بیچوں اور بیمثل کو مجسم مانا گیا۔ ہاتھ پاؤں آنکھ وغیرہ اعضاء ذات باری عزاسمہ تعالی شانہ کے لئے بھی حقیقتہ سمجھے گئے تو ان کا نام مجسمہ یا بانی فرقہ (ابن کرام) کی طرف نسبت کر کے کرامیہ ہوا۔ یہ مذہب بھی خوب چلا اور لوگ کثرت سے اس شبہ کا شکار ہو گئے محمد بن کرام نے حج بھی کیا اس کے پیرو بظاہر تزہد و تعبد میں بھی کم نہ تھے۔ آخر ملک شام کا سفر کیا اور ۲۵۶ ھ میں بمقام زعزہ فوت ہو گیا۔ صرف شام میں اس کے پیرو کوئی بیس ہزار سے زائد تھے اور جو بلاد مشرق میں تھے سو علاوہ ۔
قرامطہ یا باطنیہ:
اس کے بعد ۲۶۱ھ میں ایک شخص حمدان اشعت معروف بہ قرمط ظاہر ہوا اور اس نے بھی سب سے نرالا فرقہ نکال کھڑا کیا۔ جس کا نام قرامطہ پڑا۔ اس مذہب نے بھی اچھی رونق پائی اور عراق و شام میں خوب چمکا حتی کہ اہل جنابہ میں سے ا یک شخص ابو سعید جنابی بحرین کا حاکم ہو گیا اس کی سیاسی طاقت اس کے اپنے وقت میں اور بہت مدت تک اس کے جانشینوں میں ایسی قوی رہی کہ ’’خلفائے عباسیہ‘‘ بھی ان سے خائف رہتے تھے۔ خیر یہ تو ملکی فتنہ تھا۔ مذہبی فتنہ یہ تھا کہ انہوں نے فرائض اسلام (نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوۃ) اور احکام حلال اور حرام کے ظاہری و متعارف معانی ترک کر کے اپنی خواہش سے ان کے باطنی معنی کچھ ایسے تجویز کئے کہ حلال و حرام کا فرق اٹھا دیا۔ حتی کہ ماں ‘ بہن‘ بیٹی کی بھی تمیز نہ رہی جس سے مقدس اسلام میں ایک فتنہ عظیم برپا ہو گیا۔ اس لئے ان کا نام ’’باطنیہ‘‘ بھی ہوا عقائد نسفی وغیرہ کتب کلامیہ میں جو یہ عبارت ہے۔
|