Maktaba Wahhabi

88 - 484
شاید اس کا سبب یہ ہو کہ چونکہ آپ یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ ایمان (اصل میں ) تصدیق قلبی کا نام ہے اور وہ نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے تو اس سے لوگوں نے سمجھ لیا کہ آپ عمل کو ایمان سے موخر کرتے ہیں اور وہ مرد (خدا) یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ عمل میں اس قدر پرہیز گار ہوتے ہوئے ترک عمل کا فتوی کس طرح دے سکتے ہیں اور اس کا سبب ایک اور بھی ہے کہ آپ قدریوں اور معتزلوں کے مخالف تھے جو صدر اول میں ظاہر ہوئے۔ اور معتزلہ لوگ ہر اس شخص کو جو تقدیر کے متعلق ان کا مخالف ہو مرجی کہتے تھے۔ اسی طرح خوارج میں سے وعید یہ لوگ بھی۔ پس بعید نہیں کہ آپ کو یہ لقب ہر دو فریق معتزلہ و خوارج سے الزاماً ملا ہو واللہ اعلم۔ محاکمہ: جس امر میں بزرگان دین میں اختلاف ہو۔ اس میں ہم جیسے ناقصوں کا محاکمہ کرنا بری بات ہے لیکن چونکہ بزرگوں سے حسن تادب کی وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ ان کے کلام کے صحیح محمل بیان کر کے ان سے الزام و اعتراض کو دور کریں ۔ اور محض اپنی شخصی رائے سے نہیں ۔ بلکہ بزرگوں ہی کے اقوال سے جو قرآن و حدیث سے مستنبط ہیں ۔ جس کی تفصیل مختصراً یہ ہے کہ اعمال کے جزو ایمان ہونے یا نہ ہونے یعنی داخل ماہیت ایمان ہونے یا نہ ہونے کی بنا پر ایمان واسلام کی درمیانی نسبت کے سمجھنے پر ہے کہ ہر دو ایک ہیں یا ان میں کچھ اختلاف ہے۔ اور اس امر میں ائمہ دین میں جو اختلاف ہے وہ معلوم علماء ہے۔ جسے امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اور علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے بھی شرح صحیح بخاری میں نہایت بسط سے بیان کر دیا ہے۔ اس کے مطالعہ سے صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ ہر فریق کے پاس قرآن و حدیث سے دلائل ہیں ۔ پس کسی فریق کو بھی ملامت نہیں کر سکتے۔[1]
Flag Counter