Maktaba Wahhabi

476 - 484
میاں صاحب کی طبیعت ابتدا ہی سے تحقیق کی طرف مائل تھی۔ علم و تجوید و قرات کی کتابوں پر بھی آپ کی نظر وسیع تھی اور علم کلام پر آپ کو پورا عبور حاصل تھا۔ مولانا شاہ محمد اسحق رحمہ اللہ کی ہجرت کے بعد آپ نے مسجد اورنگ آبادی میں اپنا مستقل حلقہ درس قائم کیا اور ۱۲۷۰؁ھ تک فنون درسیہ کی ہر شاخ اور تفسیر کی کتابیں بلا استثناء پڑھاتے رہے۔ لیکن اس کے بعد تمام دیگر فنون سے اعراض کر کے صرف علوم دین‘ فقہ‘ حدیث‘ اصول حدیث اور تفسیر کو اختیار کر لیا اور زندگی کا باقی حصہ جو کہ تقریبا پچاس برس کا طویل زمانہ ہے۔ محض دین کی خدمت اور علوم دین کی اشاعت میں بسر کر دیا۔ مطالعہ کا شوق: زمانہ طالب علمی سے آپ کو کتب بینی کا بے حد شوق تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم عصروں میں جو وسعت نظر آپ کو حاصل ہوئی کسی دوسرے کو نہ ہو سکی۔ اخیر عمر تک آپ نے مطالعہ کا التزام رکھا۔ سرکاری اور دیگر کتب خانوں سے بھی آپ استفادہ کرتے تھے۔ ایک کتب خانہ خود اپنا ذاتی تھا جس میں بڑی محنت اور شوق سے کتابیں جمع کی تھیں ۔ اس میں بیشتر کتابیں قلمی اور دست خاص کی لکھی ہوئی تھیں ۔ جو طبع نہ ہوئی تھیں اور نایاب ہو چکی تھیں ۔ افسوس وہ ۱۸۵۷؁ء کی پہلی جنگ آزادی میں لٹ گیا۔ آپ کے درس کی کیفیت: چند باتیں آپ کے درس میں قابل لحاظ تھیں ۔ اقوال صحیحہ و ضعیفہ کی جانچ پڑتال‘ سلجھی ہوئی تقریر‘ بیان کی صفائی تفہیم کی قدرت‘ حافظہ کی قوت‘ اشکال کی تشریح‘ وسعت نظر‘ ملکہ راسخہ‘ ہر مقام کے مالہ و ما علیہ کی واقفیت۔ چنانچہ مولوی عبداللہ صاحب بازید پوری فرماتے ہیں ۔ درس کے وقت طلبہ کا ہجوم رہتا۔ آپ نہایت تحقیق کے ساتھ درس دیتے اور حق بات یہ ہے کہ فقہ‘ تفسیر‘ حدیث اور فلسفہ کے آپ متبحر عالم تھے۔ پڑھانے میں جب تقریر کرتے تو ایک بحر مواج معلوم ہوتے تھے۔ راولپنڈی کی نظر بندی: وہابیت کا مقدمہ ۶۵۔ ۱۸۶۴؁ء میں جب ہندوستان کے اکثر شہروں میں چلایا گیا۔ تو بیشتر ماخوذین کے لئے جس دوام بعبور دریائے شور کا
Flag Counter