اس مختصر سے بیان سے یہ امر واضح ہو گیا کہ کثیر اختلاف کے وقت بھی محدثین کی جماعت سوائے احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور طرف نہ جھکی تھی۔ اور ان کی ساری کوشش جمع احادیث و آثار میں صرف ہوئی اور برابر قرون ثلاثہ کی روش پر قائم رہی۔
محدثین اور مسئلہ تقلید:۔
صحابہ رضی اللہ عنہ تابعین اور تبع تابعین رحمہ اللہ کے وقت تک جو فروعی اختلاف ہو چکا تھا اس میں اتنی خیر تھی کہ اختلاف کے سبب مذاہب کے جدا جدا نام وضع کر کے اپنی اپنی حد بندی الگ نہیں کی گئی تھی۔ بلکہ ہر ایک کے نزدیک یہ امر مسلم تھا کہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول و فعل کو ترک کر دیا جائے۔ جب تک حدیث نہ پہنچے۔ تب تک تو عذر ہے۔ لیکن بعد حدیث کے کوئی عذر نہیں حتی کہ زمانہ تبع تابعین کے بہت مدت بعد تک بھی یہ تفریق نہ ہوئی تھی چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب حجتہ اللہ میں فرماتے ہیں ۔
اعلم ان الناس کا نواقبل المائۃ الرابعۃ غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد بعینہ۔[1]
’’جان لو کہ لوگ چوتھی صدی سے پیشتر کسی ایک معین مذہب کی خالص تقلید پر جمع نہ تھے۔‘‘
فروعی اختلاف کی جو حقیقت ہم نے بالاختصار ذکر کر دی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ حدیث یک جا جمع نہ ہونے کی وجہ سے اختلاف ہوا۔ لیکن جب حدیث جمع ہو گئی اور صحیح اور سقیم میں تمیز اور ناسخ و منسوخ کی شناخت۔ اور مرفوع و موقوف کا علم ہو گیا۔ تو اب پچھلے اختلاف کو قائم رکھنا اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف کتابوں میں جمع شدہ سمجھ کر اس کی اتباع سے رکے رہنا درست نہیں چنانچہ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ۔
فان بلغنا حدیث من الرسول المعصوم الذی فرض اللّٰہ علینا طاعتہ بسند صالح یدل علی خلاف مذھبہ وترکنا حدیثہ واتبعنا
|