Maktaba Wahhabi

112 - 484
یہ باتیں اہل علم اور اہل حدیث کے مذھب کی ہیں جو اہل سنت ہیں (اور) سنت کے کڑے کو دستاویز بنانے والے ہیں ۔ اسی سے ان کی پہچان ہے (اور) وہ آپس میں پیشوا ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابوں کے زمانے سے ہمارے اس زمانے تک اور یہ وہ باتیں ہیں جن پر میں نے علماء حجاز و شام اور ان کے سوا دیگروں کو پایا ہے۔ اور اختتام رسالہ ان الفاظ پر ہے۔ ویرحم اللّٰہ عبدا قال الحق واتبع الاثر وتمسک بالسنۃ انتھی والحمد للّٰہ وحدہ وصلی اللّٰہ علی نبینا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (ص۱۱) ’’اور رحم کرے اللہ اس بندے پر جو حق کہے اور حدیث کی پیروی کرے اور سنت کے دستاویز بنائے اور سب تعریف خدائے واحد کے لئے خاص ہے اور اللہ تعالیٰ ہمارے نبی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیجے۔‘‘ ان عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کہ امام صاحب ممدوح صرف ان عقائد کے قائل تھے۔ جو صحابہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین اسلام کی تعلیم کے دو حصے ہیں ۔ عقائد حقہ اور اعمال صالحہ۔ عقائد کا محل تو قلب ہے جس سے ان کی تصدیق کی جاتی ہے۔ اور زبان سے ان کا اظہار ہوتا ہے اور اعمال اعضاء سے بجا لائے جاتے ہیں ۔ اور دین اسلام اسی کا نام ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام اسی کی تعلیم کے لئے آئے ہیں ۔ تشریح:۔ چونکہ اسلام کے اس دور اخیر کا شروع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ جن کے عہد کے فیض یاب اور تربیت یافتہ اصحاب النبی اور اصحاب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے معزز لقب سے پکارے جاتے ہیں ۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر مجمع عام میں آسمان کی طرف سر اٹھا کر دو یا تین دفعہ کہا تھا۔ اللھم ھل بلغت ۔ اللھم ھل بلغت (بخاری) یعنی خداوند! میں (وہ دین جس کی تبلیغ تونے میرے ذمے لازم کی تھی) پہنچا چکا۔ پہنچا چکا۔ پھر صحابہ سے خطاب کر کے فرمایا۔ الا لیبلغ الشاھد الغائب
Flag Counter