عصر نبوت و عہد صحابہ میں برابر مستعمل تھے اور اسی لئے ان کو ’’مروی‘‘ کہا جاتا ہے کہ وہ زمانہ تدوین سے سابق زمانہ کے حال کی حکایت ہیں ۔ پس جب اسی عمل درآمد کو بعد کے زمانہ میں روایتہ مع اسناد مدون کیا گیا تو کتابت و تدوین نئی ہوئی نہ کہ علم و عمل۔ پس یہ شبہ بالکل بے بنیاد ہے۔ واللہ الہادی ۔
امر دوم۔امتیازی اصول و مسائل سے شناخت:
جس پر کسی فرقے کی جدت و قدامت کے متعلق نظر ضروری ہے۔ یہ ہے کہ اس فرقے کے امتیازی اصول و مسائل کو دیکھا جائے کہ آیا یہ اصول صاحب شرع کے مقرر کردہ ہیں یا اس کے بعد کسی دیگر نے ان سب کو یا ان میں سے بعض کو وضع کیا۔
اس پر نظر کرنے سے یہ فائدہ ہو گا کہ جس فرقے کے امتیازی اصول و مسائل صاحب شرع یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ ہوں گے۔ اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی نسبت اور حقیقی تعلق ہو گا۔ اور جس فرقے کے تمام یا بعض اصول و مسائل مخترعہ ہوں گے وہ فرقہ از روئے ایک خاص فرقہ ہونے کے مبلغ شریعت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم برحق فداہ روحی کی طرف حقیقتاً منسوب نہیں ہو سکے گا۔ بلکہ اس کی نسبت اس شخص کی طرف صحیح ہو گی جس نے اس کے اصول و مسائل وضع کئے۔ چنانچہ جہمیّہ کو اس نام سے اس لئے پکارا گیا کہ ان کے مسائل مخصوصہ ان کے امام و پیشوا جہم بن صفوان نے اختراع کئے۔ اور صفات باری عزاسمہ اور مسئلہ جبر و قدر کی جو کیفیت ان کے ہاں مسلم ہے وہ نہ تو زمانہ نبوت میں تعلیم کی گئی اور نہ عصر صحابہ رضی اللہ عنہ میں اس کا کوئی قائل تھا۔ پس چونکہ اہل حدیث کا اصل اصول یہ ہے ؎
اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیث مصطفے برجان مسلم داشتن
اور یہ اصول اپنی ذاتی شہادت سے بغیر کسی خارجی دلیل کی احتیاج کے ظاہر کر رہا ہے کہ میں اپنے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے ہوں اس لئے اہل حدیث کی ابتدا بھی جو اس اصول کے پابند و قائل ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ اسی بنا پر وہ علی روس
|