یترک مذھبا فیقراء خلف الامام ویرفع یدیہ عند الانحناء و نحو ذلک فاجابہ فزوجہ (شامی جلد ثالث طبع مصر ص۲۹۳)
’’ روایت ہے کہ قاضی ابو بکر جو زجانی کے عہد میں ایک حنفی نے ایک اہل حدیث سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو اس (اہلحدیث) نے انکار کر دیا مگر اس صورت میں کہ وہ (حنفی) اپنا مذہب چھوڑ دے اور امام کے پیچھے (سورہ فاتحہ) پڑھے اور رکوع جاتے وقت رفع یدین کرے اور مثل اس کے (اہل حدیث کے دوسرے کام بھی کرے) پس اس (حنفی) نے اس بات کو منظور کر لیا تو اس (اہل حدیث) نے اپنی لڑکی اس کے نکاح میں دے دی۔‘‘
قاضی ابو بکر جوزجانی تیسری صدی کے قاضی ہیں ۔ آپ ابو سلیمان کے شاگرد ہیں اور بلا واسطہ امام محمد کے شاگرد تھے (الفوائد البہیہ ص۱۲)
اس حوالہ سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ تیسری صدی میں بھی مستقل ایک گروہ موجود تھا۔ جس کا نام اصحاب حدیث تھا اور ان کے امتیازی مسائل میں سے قرات فاتحہ خلف الامام اور رکوع جاتے وقت رفع یدین تھے۔ کیا اس زمانہ میں بھی انہی مسائل کی وجہ سے اہل حدیث کے ساتھ عداوت نہیں کی گئی اور نہیں کی جاتی؟ جس کے جواب میں کہا جاتا ہے؎
مکش بہ تیغ ستم والہان سنت را
نکردہ اندبجز پاس حق گنا ہے دگر
(۵) اسی طرح امام مسلم بن قتیبہ اپنی گراں قدر کتاب تاویل مختلف الحدیث میں معتزلہ‘ جہمیہ‘ روافض‘ اہل الرائے وغیرھا فرقوں کا ذکر کرنے کے بعد ان کے مقابلے میں ایک خاص عنوان اصحاب الحدیث کے ذکر میں مقرر کرتے ہیں اور اس میں فرماتے ہیں کہ اصحاب حدیث نے حق کو اس کے ملنے کی جگہوں سے تلاش کیا اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کی وجہ سے قرب الٰہی حاصل ہو گیا۔ پھر فرماتے ہیں کہ اصحاب حدیث کی برکت سے حق ظاہر ہو گیا اور لوگ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع و منقاد ہو
|