بغاوت) پھیلا دی اور یہ جادو چل نہیں سکتا تھا۔ جب تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں کسی مقدس ہستی کو قوم کے سامنے پیش نہ کیا جاتا۔ تاکہ انقلاب کے لئے تخریب و تعمیر ہر دو پہلو درست رہیں ۔
لہٰذا اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف داری میں (بغیر اس کے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کو اپنا وکیل مقرر کر کے یہ ڈیوٹی اس کے سپرد کریں ) مسائل اختراع کرنے شروع کر دئے۔ جس سے اس کے اثر میں بہت سے لوگ آگئے اور دن بدن زیادہ ہوتے گئے حتی کہ فساد کی آگ عام ہو گئی اور مسلمانوں میں ایک فتنہ عظیم برپا ہو گیا۔
ہم اسے اپنے الفاظ میں نہیں بلکہ مشہور مورخ ابن جریر طبری کے الفاظ میں لکھتے ہیں ۔
کان عبد اللّٰہ بن سبا یھود یامن اھل صنعاء امہ سوداء فاسلم زمان عثمان ثم تنقل فی بلدان المسلمین یحاول ضلالتھم فبدء بارض الحجاز ثم الکوفۃ ثم الشام فلم یقدر ما یرید عند احد من اھل الشام فاخرجوہ حتی اتی مصر فاعتمر فیہم فقال لہم فیما یقول
عبد اللہ بن سبا اہل صنعاء میں سے ایک یہودی تھا اس کی ماں کا نام سوداء تھا۔ حضرت عثمان کے عہد خلافت میں (بظاہر) مسلمان ہوا۔ پھر اسلامی شہروں میں مسلمانوں میں گمراہی پھیلانے کے لئے گشت لگانے لگا۔ تو پہلے زمین حجاز میں آیا۔ پھر کوفہ میں پھر شام میں اہل شام میں سے کسی کے پاس بھی اپنا مقصود حاصل نہ کر سکا۔ تو انہوں نے اسے وہاں سے نکال دیا حتی کہ مصر میں آیا۔ اور ان میں مل جل کر رہنے لگا پھر ان سے یہ بات کہی۔
مسئلہ رجعت آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم :
العجب ممن یزعم ان عیسی یرجع ویکذب بان محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم : یرجع وقد قال اللّٰہ عزو جل ان الذی فرض علیک القران لرادک الی
|