ایسے لوگ ہوئے جو (ادھر ادھر) دائیں بائیں چلے گئے۔
حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ جب زمانے میں ایسا انقلاب ہو گیا تو لوگوں میں چند باتیں پیدا ہو گئیں ۔
ومنہا انھم اطماء نوا بالتقلید ودب التقلید فی صدورھم دبیب النمل وھم لا یشعرون (ص ۱۵۳)
ایک ان میں تقلید ہے کہ لوگ اس پر مطمئن ہو گئے اور وہ ان کے دلوں میں چیونٹی کی چال چلی اور ان کو شعور بھی نہ ہوا۔
اس طوفان بے تمیزی کے کے وقت بھی زمانہ بالکل خالی نہیں ہو گیا تھا۔ بلکہ ایک گروہ اسی پرانی چال سے براہ راست اتباع قرآن و حدیث پر قائم رہا اور انقلاب کی آندھی ان کے ٹمٹماتے چراغ کو گل نہ کر سکی۔ چنانچہ ان لوگوں کی نسبت بھی حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ۔
ولا اقوال کلیا مطردا فان للہ طائفۃ من عبادہ لا یضرھم من خذلھم وھم حجۃ اللّٰہ فی ارضہ وان قلوا ولم یات قرن بعد ذلک الا وھو اشد فتنۃ واوفر تقلید او اشد انتزاعا للامانۃ من صدور الرجال حتی اطماء نوابترک الخوض فی امر الدین و بان یقولوا انا وجدنا اباء نا علی امۃ وانا علی اثارھم مقتدون والی اللّٰہ المشتکی ووھو المستعان وبہ الثقۃ وعلیہ التکلان۔
یہ حکم میں بہرحال کلی طور پر نہیں لگاتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں سے ایک گروہ وہ بھی ہے کہ جو کوئی ان کا ساتھ چھوڑ دے تو ان کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ اور وہ گروہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں اس کی حجت ہیں ۔ گو وہ تھوڑے ہوتے ہیں اور زمانہ کے بعد کوئی زمانہ نہ آیا مگر وہ فتنہ میں زیادہ سخت اور تقلید میں بہت وافر اور لوگوں کے سینوں سے امانت کے سلب کرنے میں بہت شدید ہوا۔ حتی کہ لوگ دینی امور میں غور و خوض کے ترک کرنے پر اور اس
|