سب راوی جو صحیح بخاری میں ہیں سب کوفی ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن سبا کے اثر سے کوفہ میں بھی اس مسئلہ کا چرچا ہو گیا تھا۔ اور وہ لوگ صحابہ سے دریافت کرتے تھے تو وہ اس کی تردید کرتے تھے۔ الغرض ہر دو روایتوں کے راوی اسی مقام کے رہنے والے ہیں جہاں پر چرچا ہو رہا ہے اور یہ سب راوی ثقہ اور معتبر ہیں ۔
سبائی اور عثمانی :
الغرض ابن سبا کی اس تحریک بغاوت پر امت مرحومہ دو جماعتوں میں منقسم ہو گئی۔ ایک تو وہ جو اس کے بھرے میں آگئے ان کو سبائی کہتے تھے۔ دوسرے وہ جو اس کے دام میں نہ پھنسے۔ اور برابر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر حسن ظنی سے قائم رہے ان کا نام عثمانی تھا۔ علم تاریخ۔[1] شروح حدیث اور اسماء الرجال کی کتابوں میں دونوں ناموں کا استعمال بہت جگہ آتا ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت :
ابن سبا نے جو جماعت تیار کی تھی وہ مصر‘ کوفہ اور بصرہ سے ہزاروں کی تعداد میں حج کے بہانے مدینہ طیبہ میں آکر جمع ہوئی۔ اور تیس چالیس دن تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان کا محاصرہ کئے رہی۔ آخر ۱۸ ذی الحجہ کو چند مفسدین نے آپ کو جبکہ آپ قرآن شریف کھول کر تلاوت کر رہے تھے۔ نہایت بے دردی سے قتل کر ڈالا ۔[2]مفسدوں کے گھر گھی کے چراغ جلے اور مخلصوں میں گھر گھر ماتم پڑ گیا۔ اور جماعت مسلمین کا شیرازہ
|