Maktaba Wahhabi

119 - 484
کی حقیقت معلوم ہے۔ اور نہ ہم ان کے متعلق کوئی غلط شہادت ہی جانتے ہیں ۔ اور دوسری قسم مسائل کی وہ ہے۔ جن کی کیفیت کے متعلق کتاب و سنت میں تصریح نہیں ۔ اور نہ صحابہ کے عہد میں ان پر گفتگو ہوئی۔ پس وہ مسائل جوں کے توں پڑے رہے۔ حتی کہ ان کے بعد بعض علماء نے ان میں کلام کرنا شروع کیا۔ تو ان کی رائیں ان مسائل کے بیان میں اصل مسئلہ کی تسلیم کے بعد چند وجوہات پر مختلف ہو گئیں ۔ یا تو دلائل عقلیہ سے استنباط کرنے پر یا تمہید مقدمات اصول کی بنا پر۔ یا مجمل کی تفصیل اور مبہم کی تفسیر اور تعیین کیفیت میں مختلف ہونے کے سبب۔ اور ان مسائل میں بھی ایک گروہ کا قول وہی رہا۔ کہ ہم کو معلوم نہیں کہ ان سے کیا مراد ہے‘‘۔ (انتہی) پس اس قسم دوم کے مسائل کے اختلاف کی نسبت حضرت شاہ صاحب اپنا فیصلہ ان الفاظ میں دیتے ہیں :۔ وھذا القسم لست استصح نرفع احدی الفرقتین علی صاحبتھا بانھا علی السنۃ[1] ’’اس قسم کے مسائل میں میں ایک فرقہ کو دوسرے فرقہ[2]پر ترجیح دینے کو صحیح نہیں جانتا کہ ٹھیک وہی سنت پر ہے۔‘‘ اس کے بعد حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر ایک گروہ نے وجوہ مذکورہ بالا کی بنا پر جو کچھ بیان کیا ہے۔ ضروری نہیں کہ دوسرے کے مقابلہ میں جمیع جزئیات میں راستی پر ہو[3] اور چونکہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ کسی شخص کا سنی المذہب قسم اول کے لحاظ سے ہے۔ اس لئے علماء سنت آپس میں کثیر مسائل میں اختلاف کرتے چلے آئے ہیں ۔ مثلاً اشاعرہ اور ماتریدیہ اور (اسی لئے) تو دیکھتا ہے کہ ہر زمانہ کے حاذق علماء کسی ایسے نکتہ کے بیان سے ہر گز نہیں رکے جو سنت کے خلاف نہ
Flag Counter