Maktaba Wahhabi

98 - 484
اپنی مخلوقات میں جس طرح کہ وہ چاہے تصرف کرنا تصرف بے جا نہیں ہے اس لئے گنہگار کی بخشش خلاف عدل نہیں ہے بلکہ مغفرت و رحمت میں خوبی و حسن زیادہ ہے در عفو لذتیست کہ در انتقام نیست پس ڈرانے اور ڈانٹنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مغفرت سے مسلوب الاختیار نہیں ہو جاتا اسی اختیار کے سمجھانے کے لئے فرمایا فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ (بقرہ پ۳) ’’یعنی جسے چاہے گا بخشے گا اور جسے چاہے گا عذاب کرے گا۔‘‘ ہاں اس کا وعدہ ہے کہ میں ایمان اور اعمال صالحہ پر نیک جزا دوں گا۔ ’’اور اس نے ڈرایا بھی ہے کہ کفر و شرک اور بداعمالی پر عذاب کروں گا۔ اور مسلم (فرمانبردار) اور مجرم (نافرمان) کا حشر ایک نہ کروں گا۔‘‘ اس قسم کی جتنی آیات و احادیث ہیں ۔ سب میں اعلان قانون ہے اور اختیار اور قانون دو الگ الگ مفہوم ہیں ۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ اس کا قانون اس کے اختیارات کے ماتحت ہے لایسئل عما یفعل۔ یا یوں سمجھئے کہ اس کا یہ بھی قانون ہے کہ اس کا اختیار قانون پر حاوی ہے۔ (۲) باقی رہا صفات کا مسئلہ سو اس کی نسبت ہم سابقہ فرقہ جہمیہ کے ذکر میں کسی قدر وضاحت کے ساتھ بیان کر آئے ہیں کہ تعدد قدما۔ وہ منافی توحید ہے۔ جس میں ذوات متعددہ مانی جائیں مثلا آریہ کہ ان کے نزدیک ذات باری‘ روح اور مادہ تینوں قدیم ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تینوں ذاتی طور پر الگ الگ چیزیں ہیں اور عیسائی کہ باپ اور بیٹا اور روح القدس تینوں کو قدیم مانتے ہیں اور یہ بھی اپنی اپنی ذات میں ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔ لیکن صفات و ذات باری کا حال ایسا نہیں بلکہ ذات ’’واحد‘‘ ہے اور اس کی صفات کمال ’’کئی ایک‘‘ ہیں وانّٰی ھذا من ذاک کیونکہ ایک ہی ذات کی کئی ایک صفات ہو سکتی ہیں ایک ہی انسان میں شفقت و مہربانی بھی ہے اور دوسرے موقع پر اس میں غصہ و انتقام بھی ہے۔ خلیفہ مامون و مذہب اعتزال:۔ خلیفہ مامون[1] کو علوم یونان کے عربی تراجم کا از حد
Flag Counter