گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر فیصلے (اور عمل درآمد) کرتے تھے۔ بعد اس کے کہ وہ فلاں اور فلاں (اشخاص) کے اقوال پر فیصلے (اور عمل درآمد) کرتے تھے۔ اگرچہ وہ اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر فیصلے (اور عمل درآمد) کرنے لگے ۲۱۳ھ میں بغداد یا کوفہ میں پیدا ہوئے اور ۲۷۶ھ میں بغداد میں فوت ہوئے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ کے وقت میں اور ان سے پیشتر ان مذکورہ بالا فرقوں کے مقابلے میں ایک خاص فرقہ اصحاب حدیث کا موجود تھا۔ جن کا مذہب اقوال الرجال کے مقابلے میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی تھی۔ اور یہی اہل حدیث کا امتیازی نشان ہے اور یہی اتباع حدیث کی خصوصی علامت ہے اور یہی صورت حضرات مقلدین اور اہل حدیث میں زیر نزاع ہے۔ جس پر وہ اہل حدیث کو غیر مقلد کہتے ہیں ۔
(۶) اس کے بعد ہم ایک ایسے علم کا حوالہ پیش کرتے ہیں جسے مذہبی اختلافات سے کوئی بھی تعلق نہیں ۔ اس میں بھی فرقہ اہل حدیث کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ تاریخ فرشتہ میں سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے ذکر میں لکھا ہے۔
سلطان محمود نیز ابو الطیب سہل بن سلیمان معلوکی راکہ ازائمہ اہل حدیث بود برسم رسالت پیش ایلک خاں فرستادہ الخ۔ جلد اول مقالہ اول ص۱۲۳۔[1]
سلطان محمود غزنوی رحمہ اللہ کا زمانہ اسلام کے نہایت عروج و اقبال کا زمانہ ہے یہ سلطان عظیم الشان ۳۵۷ھ میں پیدا ہوا اور ۳۴سال سلطنت کی۔
(۷) اس کے علاوہ اسی فن کا دوسرا حوالہ یہ ہے کہ علامہ بشاری مقدسی جنہوں نے ۳۷۵ھ میں ہندوستان کی سیاحت کی اپنے سفر نامہ میں حالات ’’منصورہ‘‘ علاقہ سندھ میں فرماتے ہیں ۔
’’یہاں کے ذمی بت پرست لوگ ہیں ۔ مسلمانوں میں اکثر اہلحدیث ہیں ۔‘‘ (تاریخ سندھ جلد اول ص۱۲۴)
|