رسم الخط میں کروا کر بلاد اسلامیہ میں چاروں طرف بھیج دیں ۔
اسی طرح خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بھی حالت زمانہ اور صحابہ کی وفیات پر نظر کر کے ضروری سمجھا کہ علم حدیث کو کتابی صورت میں جمع کر لیا جائے۔ پس ابوبکر بن حزم تابعی رحمہ اللہ (عامل مدینہ) کو حکم کیا کہ تم اس کام کو اپنے اہتمام سے انجام دو۔
(۲) خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے فرمان میں صاف لکھ دیا کہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث لکھی جائے اور اس کے سوائے اور کچھ نہ لکھا جائے۔
(۳) اس فرمان میں یہ بھی بتصریح لکھا کہ کتابی جمع کے علاوہ اشاعت علم (حدیث) کے لئے علمی مجالس بھی منعقد کی جائیں اور ان میں اس علم (حدیث) کا درس دیا جائے۔ کیونکہ علم کی اشاعت دو ہی طریق سے ہوتی ہے۔ تدریس سے اور اشاعت کتب سے۔ پس ہر دو طریق سے علم حدیث کی خدمت کرنے کا حکم صادر فرمایا اور یہ بھی صاف الفاظ میں فرما دیا کہ علم کا فنا اور زوال صرف اس کے مخفی و پوشیدہ رہنے سے ہوتا ہے اور بس۔
(۴) خلیفہ راشد نے ابوبکر بن حزم کو خصوصیت سے جو اس خدمت کے لئے منتخب کیا تو اس کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ابوبکر مذکور کی شخصیت کے متعلق بھی کچھ لکھیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ مردم شناس خلیفہ نے یہ بھاری خدمت کیسے قابل و موزوں ہاتھوں میں دی تھی۔
ابو بکر بن حزم رحمہ اللہ :
ابوبکر بن حزم کا نسب نامہ یوں ہے۔ ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم بن زید بن لوذان خزرجی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابوبکر اپنے جد اعلیٰ حضرت حزم رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہیں ۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انصاری یعنی مدنی جانثاروں سے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خندق میں موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اہل نجران پر عامل مقرر تھے۔
حضرت حزم رضی اللہ عنہ کا بیٹا عمرو جو ابوبکر کا دادا ہے وہ بھی صحابی ہے۔ ابوبکر کی دادی عمرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی شاگرد تھیں ۔ محمد جو ابوبکر کا دادا ہے۔ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سعادت مہد میں پیدا ہونے کا شرف حاصل ہے۔ چنانچہ نجران میں ۱۰ھ میں پیدا
|