ما تریدیہ:۔
خواجہ ابو الحسن اشعری کے زمانہ ہی میں بمقام ماتریدیہ جو سمر قند کا ایک محلہ یا اس کے متصل ایک موضع تھا۔ امام ابو منصور[1]محمد بن محمود ہوئے۔ یہ دو واسطوں سے قاضی ابو یوسف اور امام محمد کے شاگرد تھے۔ انہوں نے قاضی ابوبکر احمد جوزجانی سے علم فقہ سیکھا تھا۔ جنہوں نے ابو سلیمان جوزجانی سے پڑھا تھا۔ اور انہوں نے امام محمد رحمہ اللہ سے۔
امام ابو منصور ماتریدی نے بھی خواجہ ابو الحسن اشعری کی طرح معتزلہ‘ قرامطہ اور روا فض کے رد میں کئی ایک کتابیں لکھیں ۔ عقائد کی بنا نصوص ہی پر رکھی۔ لیکن طریق بیان اور صورت استدلال عقلی میں بعض مسائل میں خواجہ اشعری سے اختلاف کیا۔ لہٰذا ان کا طریق الگ قرار پایا۔ اور ’’ماتریدی‘‘ کے نام سے موسوم ہوا۔ چونکہ یہ خود حنفی تھے۔ اور قاضی ابو یوسف کے قاضی القضاۃ اور امام محمد کے قاضی ہونے کے سبب بلاد خراساں میں حنفی مذہب کی عام اشاعت ہو چکی تھی۔ اس لئے امام ماتریدی کا مسلک زیادہ تر حنفیوں ہی نے اختیار کیا۔ پس اشعری اور ماتریدی ہر دو مسلک شوافع اور احناف میں بالترتیب مخصوص سمجھے گئے چنانچہ علامہ عز الدین ابن اثیر جزری ’’تاریخ کامل‘‘ میں واقعات ۴۶۶ھ میں قاضی ابو الحسین بن ابی جعفر سمنانی کی وفات کے بیان میں لکھتے ہیں ۔
وکان ھو وابوہ من الغالین فی مذھب الاشعری ولابیہ فیہ تصانیف کثیرۃ وھذا مما یستطرف ان یکون حنفی اشعریا۔[2]
’’قاضی ابو حسین اور ان کا باپ (ابو جعفر) دونوں طریق اشعری میں نہایت غلو کرتے تھے۔ اور ان کے باپ (ابو جعفر) کی اس بارے میں بہت سی تصانیف ہیں اور یہ تعجب کی بات ہے کہ کوئی حنفی بھی اشعری ہو۔‘‘
ما تریری و اشعری ہمہ خوب لیک طور سلف برد مرغوب
|