اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ گروہ باشکوہ چوتھی صدی میں کثرت سے ہندوستان میں بھی موجود تھا۔
(۸) اس کے علاوہ اسی فن کی ایک اور مشہور و متداول کتاب تاریخ ابن خلدون کا حوالہ ہے اس میں علامہ موصوف صحابہ کے بعد کے زمانے کی نسبت فرماتے ہیں :
وانقسم الفقہ فیہم الی طریقتین طریقۃ اھل الرای والقیاس وھم اھل العراق وطریقۃ اھل الحدیث وھم اھل الحجاز وکان الحدیث قلیلافی اھل العراق لما قدمنا (مقدمہ ص۲۷۲ فصل فی علم الفقہ)
اور منقسم ہو گئی ان میں فقہ دو طریقوں پر اہل رائے و قیاس کے طریقہ پر اور وہ اہل عراق ہیں اور اہل حدیث کے طریق پر اور وہ اہل حجاز ہیں ۔ اور اہل عراق میں فن حدیث قلیل تھا۔ اس وجہ سے جو ہم نے جو بیان کی۔
اس کے بعد پھر اسی فصل میں فرماتے ہیں ۔
ولم یبق الامذھب اھل الرای من العراق واھل الحدیث من الحجاز (مقدمہ ج۱۔ ص۲۷۳)
’’اور نہیں باقی رہا مگر مذہب اہل رائے کا عراق سے اور اہل حدیث کا حجاز سے۔‘‘
(۹) اس کے بعد ہم ایک ایسے بزرگ کی عبارتیں نقل کرتے ہیں ۔ جو اہل حدیث اور مقلدین میں برابر مسلم ہیں ۔ ان سے مراد حضرت پیر صاحب سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ہیں آپ اپنی مشہور کتاب غنیتہ الطالبین میں بہت جگہ اہل الاثر اور اہل حدیث کا ذکر کرتے ہیں چنانچہ آپ علامات ’’اہل بدعت‘‘ کی فصل میں تحریر فرماتے ہیں ۔
’’فعلامۃ اھل البدعۃ الوقیعۃ فی اھل الاثر‘‘
( ص۱۹۸ مطبوعہ مطبع مرتضوی دہلی)
’’بدعتیوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ ’’اہل حدیث‘‘ کی غیبت و بدگوئی کرتے ہیں ۔‘‘
|