چونکہ ان کی روش سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ رضی اللہ عنہ کی پابند تھی۔ اس لئے ان کا نام اہل حدیث یا اہل السنت و الجماعت ہوا۔ اس لفظ کا استعمال اختلاف و فتنہ کے وقت ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ چنانچہ امام مسلم اپنی صحیح کے مقدمہ میں امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ تابعی سے باسناد خود روایت کرتے ہیں ۔
لم یکونوا یسئلون عن الاسناد فلما وقعت الفتنۃ قالوا سموا لنا رجالکم فینظر الی اھل السنۃ فیوخذ حدیثہم وینظر الی اھل البدع فلا یوخذ حدیثہم[1]
(پہلے) اسناد کی نسبت سوال نہیں ہوتا تھا۔ لیکن جب فتنہ برپا ہو گیا تو سوال ہونے لگا کہ ہمیں اپنے راویوں کی شخصیت بتاؤ تاکہ اہل سنت کی تمیز کر کے ان کی روایت کردہ حدیث لے لی جائے اور اہل بدعت کو بھی دیکھ کر ان کی بیان کردہ حدیث نہ لی جائے۔
امام محمد بن سیرین تابعی ہیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں ۳۳ھ میں پیدا ہوئے۔ اور ۱۱۰ھ میں ستتر سال کی عمر میں بصرہ میں فوت ہوئے آپ کا یہ قول اصل میں روایت ہی ہے کیونکہ وہ لفظ قَالُوْا سے روایت کرتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ان کے زمانے سے پیشتر لفظ اہل سنت رائج ہو چکا تھا اور اہل سنت اور اہل بدعت کی تمیز بھی ہو چکی تھی۔
تنبیہ:۔ اس حوالے سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ اہل سنت کا معزز لقب اہل بدعت کے مقابلہ میں تجویز ہوا تھا۔ پس کوئی اہل بدعت بدعت کرتے ہوئے اس لقب کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ فافھم
اشعریہ:۔
اہل سنت ایک فرقہ اور اس کے مقابلے میں اس قدر فرقے پیدا ہوتے گئے اور ابھی بس نہیں ہو گئی تھی سب کی بنا عقلی شبہات پر تھی۔ اور اہل سنت ہیں کہ ان علوم کی طرف کان نہیں دھرتے۔ ائمہ اہل سنت یعنی امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ
|