اہل حدیث و دیگراں
ناظرین کرام! جب آپ فصول سابقہ میں پڑھ چکے کہ علم کی کمی اور نصوص سے بے پرواہی اور درباری مناصب اور شاہی خطابات کی رغبت اور آپس میں ایک دوسرے سے کدو کاوش کے سبب تقلید کی جڑ جم گئی۔ اور اس کا درخت سلطنت کی آبیاری سے خوب پھیل گیا۔ اور اس نے ایک جہان کو اپنے سایہ میں لے لیا۔ اور آپ یہ بھی معلوم کر چکے کہ اس وقت بھی ایک گروہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر مضبوطی سے قائم رہا اور حسب وصیت حضرت خیر البریہ عضوا علیہا بالنواجذ (ترمذی) حدیث نبوی کو محکم طور پر پکڑے رہا۔ جیسا کہ جناب شاہ صاحب کی عبارت میں گذر چکا اور حدیث صحیح لا تزال طائفۃ من امتی الخ کے مطابق یہ گروہ حق پژدہ ہر زمانہ میں برابر چلا آیا ہے۔ تو اب معلوم کرنا چاہئے کہ ان قلیل التعداد متبعین سنت کا تعلق دوسرے فرقوں سے کیا رہا اور دوسرے ان سے کیسے سلوک سے پیش آئے اور پھر انہوں نے ان سے کیا برتاؤ کیا۔
سو معلوم ہو کہ جیسا کہ ہوائے زمانہ کے خلاف چلنے والوں کو قسم قسم کی شدائد و مصائب کا نشانہ اور طرح طرح کی ملامتوں اور بدگوئیوں اور انواع و اقسام کے بہتانوں اور افتراؤں کا آماجگاہ بننا پڑتا ہے کہ کبھی تو ابنائے زمانہ اہل حق کے دلائل سے تنگ آکر ان پر فتوے جڑ جڑ کر ان کی شکایتیں حکومت میں پہنچاتے اور ان پر زمین تنگ کر دیتے ہیں جیسا کہ سید المحدثین امام عالی مقام محمد بن اسمٰعیل بخاری علیہ الرحمتہ اللہ الباری سے کیا گیا۔ اور کبھی ان پر اتہام و بہتان لگا لگا کر عوام الناس کو ان کے برخلاف بھڑکا کر ان سے بدظن بنا دیتے ہیں کہ کوئی ان سے ہدایت نہ پا سکے۔
اسی طرح غریب اہل حدیث بھی روش زمانہ و تقلید کے خلاف چلنے کے سبب طرح طرح کی اذیتوں کا تختہ مشق بنائے گئے۔ ان کے لئے مکروہ نام تجویز کئے گئے کہ لوگ ان سے نفرت کریں ۔ جب انہوں نے تقلید کا بند گلے میں نہ ڈالا تو اس کے عوض میں ان کو قید
|