خانہ میں بند کیا گیا۔ اور چونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ذرہ بھی نہ ہٹے تھے اس لئے ان کے اس رسوخ و جماؤ کو نقل مکانی و جلا وطنی سے بدلا گیا۔ فلدرہم و علی اللہ اجرہم۔
ان غریبوں نے ان سب مصائب کو نہایت استقلال سے برداشت کیا اور اپنی بے گناہی کے لئے زبان حال سے یہی کہتے رہے؎
مکش بہ تیغ ستم والہان سنت را
نکردہ اند بجز پاس حق گناہ دگر۔!
وطن سے خارج ہوئے۔ لیکن اتباع سنت سے قدم باہر نہ رکھا۔ قید کئے گئے مگر غیر کی تقلید کا بند گلے کا ہار نہ بنایا۔ بدسنا‘ بدنام ہوئے‘ طعنے سہے‘ نشانہ بنے لیکن جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا اس سے منہ نہ موڑا۔ دام میں پھنسے دم نکلنے کو ہوا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نہ چھوڑا۔ ومما قلت؎
فدائے سنت احمد صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنا نام کرتے ہیں
وہی دارین میں اپنے کو خوش انجام کرتے ہیں
اگر ہم ان امور کو واقعات سے ثابت نہ کریں تو شائد کوئی محض تخیلات اور بیجا شکایات سمجھے اس لئے حوالجات ذیل ملاحظہ ہوں ۔
حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ جن کا اہل حدیث ہونا سابقا ثابت ہو چکا ہے اپنی کتاب غنیتہ الطالبین میں فرماتے ہیں کہ قدریہ و معتزلہ تو (اس) فرقہ ناجیہ کا نام مجبرہ (جبریہ) رکھتے ہیں اور مرجیہ لوگ ان کو شکاکیہ کہتے ہیں اور رافضی ان کو ناصبی کے نام سے پکارتے ہیں اور جہمیہ و نجاریہ ان کو مشبہ کہتے ہیں اور باطنیہ ان کو حشویہ سے یاد کرتے ہیں ۔
ویسمیہا الباطنیۃ حشویۃ لقولہا بالاخبار وتعلقہا بالاثار وما اسمھم الا اصحاب الحدیث واھل السنۃ علی مابینا (غنیہ مترجم فارسی ص۲۱۲)
’’کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے قائل ہیں ‘ اور روایات سے تعلق
|