حضرت سید عبد القادر جیلانی (قدس سرہ)
اہل حدیث تھے
عوام الناس کی طبیعتیں حجت خطابی سے اطمینان پا جاتی ہیں ۔ یعنی اگر ان کو کسی مسلم بزرگ کا قول یا فعل نقل کر کے بتا دیا جائے۔ تو وہ تسلیم کر لیتے ہیں ۔ اس لئے جب ہم عوام کی تسلی کے لئے کہتے ہیں کہ حضرت پیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ بھی توحید اور اتباع سنت کی تاکید کرتے اور شرک و بدعت سے منع کرتے ہیں ۔ نیز آپ قرات فاتحہ کو فرض اور آمین بالجہر کو سنت جانتے ہیں ۔ تو وہ اپنے علماء کے سکھانے سے یہ جواب دیتے ہیں کہ حضرت پیر صاحب تو حنبلی مذہب کے مقلد تھے اور تم غیر مقلد ہو۔ اگر تم بھی کسی امام کی تقلید کرو تو یہ سب امور ادا کر لیا کرو۔ ورنہ نہیں ۔ اول تو ان کو یہی سوچنا چاہئے کہ جب یہ حال ہے تو ہمارے اور ان کے درمیان نزاعی امر صرف تقلید شخصی ہوا۔ نہ کہ رفع یدین وغیرہ مسنون امر۔ لہٰذا مناسب نہیں کہ ان امور کے سبب ہم پر غضب ڈھائے جائیں اور مسجدوں سے نکالا جائے اور مقدمات کی صورت پیدا کر کے عدالت میں مسلمانوں کے ایمان و وقت اور مال و عزت کو برباد کیا جائے۔ ہاں صرف تقلید شخصی کو مبحث قرار دے کر امن و سلامتی سے اس پر گفتگو کر لی جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے یہ ثابت ہو جائے تو اہل حدیث بھی اسے قبول کر لیں ۔ ورنہ مقلدین بھی اس سے دست بردار ہو جائیں ۔ اور دونوں متفق ہو کر واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا پر عمل کر کے ولا تفرقوا کی مخالفت سے بچ کر اسلامی جمعیت کا شیرازہ مضبوط کریں ۔
دیگر یہ کہ اگر طریق مذکور پر عمل مشکل ہو تو حضرت پیر صاحب ہی کے مذہب کی تحقیق کر لیں کہ وہ اہل حدیث تھے یا مقلد؟ سو معلوم ہو کہ ہمیں حضرت پیر صاحب کے قول سے کہیں نظر نہیں آیا کہ آپ نے رتبہ علم پر پہنچ کر کسی خاص امام کی تقلید کا
|