Maktaba Wahhabi

73 - 484
تعالی فی نفسہ وان لم یوجد بعد[1] ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا اور اکثر علماء کے نزدیک یہ اس صورت کو خطاب ہوتا ہے جو خداوند تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہے اگرچہ فی الوقت موجود نہ ہو۔‘‘ اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حدیث جبریل علیہ السلام کے ذیل میں فرماتے ہیں : والمرادان اللّٰہ علم مقاد یرالاشیاء وازمانھا قبل ایجادھا ثم اوجد ماسبق فی علمہ انہ یوجد فکل محدث صادر عن علمہ وقدرتہ وارادتہ ھذا ھو المعلوم من الدین والبراھین القطعیۃ وعلیہ کان السلف من الصحابۃ وخیار التابعین الی ان حدثت بدعۃ القدر فی اواخر زمن الصحابۃ۔[2] ’’تقدیر سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چیزوں کے مقداروں اور زمانوں کو ان کے پیدا کرنے سے بھی پہلے سے جانتا ہے۔ پھر جیسا کہ پہلے اس کے علم میں ہوتا ہے کہ یہ چیز اس طرح موجود ہو گی اسی طرح اس کو وجود میں لاتا ہے۔ پس ہر پیدا شدہ اس کے علم اور اس کی قدرت اور اس کے ارادے سے پیدا ہوتی ہے۔ اصل (دینی بات) جو براہین قطعیہ سے معلوم ہوئی ہے یہی ہے۔ اور صحابہ اور خیار تابعین اسی کے معتقد تھے۔ یہاں تک کہ تقدیر کے انکار کی بدعت زمانہ صحابہ کے آخری سالوں میں پیدا ہو گئی۔‘‘ اسی طرح حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ فقہ اکبر میں اندراجات لوح محفوظ کی نسبت فرماتے ہیں : ولکن کتبہ بالوصف لا بالحکم اور ملا علی قاری رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں : ای کتب اللّٰہ فی حق کل شئی بانہ سیکون کذ او کذا ولم یکتب
Flag Counter