آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر سب سے پہلا اختلاف ایسے امر میں ہوا جو نظام امت کا مدار کار تھا یعنی امر خلافت۔ انصار مدینہ اپنی خدمات اسلام کی بناء پر مدعی خلافت تھے اور مہاجرین اپنی جاں نثاریوں کی بنا پر۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا اور اس میں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ قریش ولاۃ ھذا الامر (تاریخ طبری) یعنی اس امر (خلافت) کے والی قریش ہیں ۔
اس حدیث کے پیش ہونے سے پیشتر صحابہ کی رائیں مختلف تھیں اور ہر فریق اپنی اپنی قیاسی وجوہات پیش کرتا تھا لیکن اس حدیث کے سننے پر سب نے گردنیں جھکا دیں اور اختلاف چھوڑ دیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کر لیا۔ اگر صحابہ اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی راؤں پر فوقیت و ترجیح نہ دیتے تو خدا جانے کیا کیا فساد اٹھتے۔ اور نوبت جنگ و قتال پر پہنچ کر کیا سے کیا ہو جاتا۔ یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی برکت تھی کہ امت مرحومہ فساد و تباہی سے بچ گئی۔
دوسرا اختلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کے متعلق ہوا۔ بعض کہتے تھے بیت المقدس میں دفن کئے جائیں جہاں دیگر انبیاء کی قبریں ہیں۔ بعض کہتے تھے کہ بقیع میں اپنے صحابہ کے ساتھ دفن کئے جائیں اور بعض کہتے تھے کہ اپنی مسجد ہی میں دفن کئے جائیں ۔ سب کی بنا قیاسیات پر تھی اس پر بھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ماقبض نبی الاید فن حیث قبض (طبری) یعنی جہاں پر کسی نبی کی روح قبض کی گئی وہ اسی جگہ دفن کیا گیا۔ اس پر سب نے اپنی اپنی رائے چھوڑ دی اور آپ کا بسترہ اٹھا کر اس کے نیچے آپ کی قبر تیار کی گئی۔ اللھم صلی علی محمد وعلی الہ واصحابہ وبارک وسلم۔
یہ خاص واقعات ہیں ۔ اب اس زمانے کا عام دستور بھی دیکھ لیجئے۔
خلافت صدیقی:۔
مسند دارمی میں میمون بن مہران تابعی سے روایت ہے کہ:
عن میمون بن مہران قال کان ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ اذا ورد علیہ الخصم نظر
|