الاشہاد کہتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں ’’ہمارا کوئی عقیدہ اور کوئی طریق عمل اور کوئی طریق عبادت ایسا نہیں ۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سکھایا یا فرمایا ہوا نہ ہو۔ یا عصر صحابہ رضی اللہ عنہ میں اس پر عمل نہ ہوتا ہو‘‘ اور سب مراتب کے بعد یہ کہ ہمارا ظاہر و باطن بالکل قرآن و حدیث کے مطابق و موافق ہے۔ اور اس میں سرمو کسی طرح کا تخالف نہیں ہمارے کسی عقیدے اور کسی عمل میں کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن شریف کی کسی نص یا حدیث نبوی کے کسی بیان یا ہر دو کے صحیح استنباط سے ذرہ برابر بھی مخالف ہو ہمارے جمیع مسلمات اعتقادیہ و عملیہ (اصولیہ و فروعیہ) ہمارے نزدیک ٹھیک اسی صورت میں تسلیم کئے جاتے ہیں ۔ جس صورت میں صحابہ رضی اللہ عنہ میں تسلیم کئے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تعلیم کئے تھے یا کم از کم بصورت نص موجود نہ ہونے کے قرآن و حدیث سے صحیح طور پر مستنبط ہیں ‘ نہ تو وہ استنباطات مخالف نصوص ہیں اور نہ ان کی بنا محض قیاس و رائے پر ہے۔
امر سوم: تاریخی طور سے شناخت
جس پر کسی فرقے کی جدت و قدامت کی نسبت نظر کرنی ضروری ہے یہ ہے کہ تاریخی طور پر اس فرقے کے اصول کو دیکھا جائے کہ ان پر عمل درآمد کب شروع ہوا۔ آیا مبلغ شرع پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے وقت میں ۔ یا اس (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بعد صدر اول میں ان اصول متنازعہ پر عمل درآمد تھا یا نہیں ۔
یہ اس لئے ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی فرقہ قرآن و حدیث میں کھینچ تان کر کے اور اپنے خود ساختہ مقدمات و اصول قیاس اور قواعد اجتہاد قائم کر کے اپنے اصول کو پرانے قرار دے لے۔ لیکن دیکھنا تو یہ ہے کہ جس صورت میں یہ اصول و مسائل ہمارے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ۔ آیا اس صورت نے اس سے قبل عہد نبوت و عصر صحابہ رضی اللہ عنہ میں بھی عملی شکل اختیار کی تھی۔ کیونکہ اسلام عملی مذہب ہے اور اس کا علم بھی عمل سے متعلق ہے۔ محض ذہنی نہیں ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے آخری نبی ہیں ۔ اور صحابہ رضی اللہ عنہ آپ سے علم و عمل حاصل کرنے والے ہیں ۔ اگر تاریخی طور پر ثابت ہو جائے کہ یہی پیش افتادہ صورت زمان برکت نشان میں مسلم تھی۔ تو اس فرقے کے قدیم ہونے میں اور اپنے صاحب شرع کے وقت سے ہونے میں کلام نہیں ۔ ورنہ اس
|