Maktaba Wahhabi

109 - 484
وقت وہاں عبیدیین کی حکومت کے زور سے مذہب شیعہ بہت زور پر تھا۔ انہوں نے اہل سنت کو گوناگوں مظالم کا تختہ مشق بنا بنا کر ان کے مذہب کو سخت ضعیف کر دیا تھا۔ سلطان صلاح الدین رحمہ اللہ نہایت دیندار تھے۔ فروع میں شافعی رحمہ اللہ اور اصول میں اشعری طریق پر تربیت پائی تھی۔ مصر کی حکومت ہاتھ لیتے ہی مذہب شافعی اور طریق اشعری کی ترویج شروع کر دی۔ قضا‘ تولیت‘ اوقاف وغیرہ کے سب عہدے شوافع اور اشعریہ ہی کے سپرد کئے گئے۔ طریق اشعری آگے ہی زیادہ تر شوافع ہی میں رائج ہوا تھا۔ سلطان کے اس رویہ سے شافعیت و اشعریت آپس میں لازم و ملزوم ہو گئے۔ اور مصر‘ شام‘ ارض حجاز‘ یمن اور بلاد مغرب میں ہر جگہ شافعیوں اشعریوں ہی کا پھر یرا لہرانے لگا۔ اسی طرح ابو عبد اللہ محمد بن تومرث مغربی نے جب عراق کا سفر کیا تو امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت میں رہ کر اشعری طریق سیکھا اور اپنے دیار میں واپس جا کر اسی طریق کو جاری کیا۔ جب محمد بن تومرث فوت ہو گیا اور عبد المومن بن علی قیسی اس کا خلیفہ ہوا۔ اور اس نے بلاد مغرب میں قبضہ پا کر تسلط حاصل کیا۔ تو ’’امیر المومنین‘‘ کا لقب اختیار کر کے اشعری طریق کو بزور شائع کیا۔ اور جس کسی نے اس سے انکار کیا۔ اس کی گردن اڑا دی۔ کیونکہ محمد بن تومرث ان کے نزدیک امام معصوم اور مہدی موعود[1] سمجھے جاتے تھے۔ بلاد مغرب میں حکومت موحدین سے انہی کی حکومت مراد ہے۔ سلطان صلاح الدین مرحوم کے بعد تخت مصر پر اور بلاد مغرب میں عبدالمومن کے بعد ان کی اولاد میں سے جو جو جانشین ہوئے۔ وہ بھی انہی کے نقش قدم پر چلے۔اور سوائے اشعریوں کے کسی کا قدم نہ جمنے دیا۔ اور یہ امر اشعری طریق کی عام اشاعت کا ایک سبب ہوا۔
Flag Counter