Maktaba Wahhabi

108 - 484
اصول میں اختلاف کیا جو اہل سنت کی مخالفت میں مشہور تھے مثلاً صفات و رویت کا اثبات اور یہ کہ قرآن غیر مخلوق ہے۔ اور اثبات تقدیر وغیرہ وغیرہ احوال اہل سنت و حدیث کے مسائل ہیں ۔ اور اس نے کتاب المقالات میں ذکر کیا کہ میں وہی کہتا ہوں جو سنت اور حدیث والوں نے کہا ہے۔ اور اس نے کتاب الابانہ میں ذکر کیا کہ میں امام احمد رحمہ اللہ (بن حنبل) کے قول کی پیروی کرتا ہوں ۔‘‘ پھر اس کے چند سطر بعد فرماتے ہیں ۔ ’’وان ھذہ بقیت علیہ من کلاب المعتزلۃ ‘‘ ’’یہ مسئلہ امام اشعری رحمہ اللہ میں معتزلوں کا بقیہ رہ گیا تھا۔‘‘ امام اشعری رحمہ اللہ کی وجہ سے علم کلام نے اہل سنت کے ہاں بھی قبولیت پائی۔ تو آپ کے شاگردوں اور پھر ان کے شاگردوں اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بھی بڑے بڑے ائمہ فن پیدا ہوئے۔ جن کے زور قلم اور قوت استدلال سے اشعری طریق نے خوب رونق پائی۔ اور معتزلوں کا زور ٹوٹ گیا۔ مثلاً ابو سہل صعلو کی ابو بکر قفال‘ ابو زید مروزی‘ ابو بکر باقلانی استاد ابو اسحق اسفرائنی‘ ابو بکر بن فورک‘ امام الحرمین (امام غزالی رحمہ اللہ کے استاد) جن کا فتوی عراق سے عرب تک بلا مزاحمت چلتا تھا۔ خود امام حجتہ الاسلام اور پھر امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ جیسے مشہور عالم متکلمین اہل سنت۔ اس کے علاوہ بعض سلاطین بھی اسی روش کے ہوئے۔ تو انہوں نے زمانہ سابق کے مفاسد دور کرنے کے لئے اپنے زور حکومت سے بھی اسی طریق کی اشاعت کی۔ چنانچہ جب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ [1]فاتح بیت المقدس نے مصر پر تسلط کیا۔ تو اس
Flag Counter