Maktaba Wahhabi

97 - 484
فرقہ معتزلہ معتزلوں نے اپنے لئے ’’اہل العدل والتوحید‘‘ کا نام تجویز کیا۔ اس لئے کہ ان کے نزدیک خدا تعالیٰ پر واجب ہے کہ مطیع کو ثواب دے اور عاصی کو اگر وہ بغیر توبہ کے مر گیا ہو عذاب کرے۔ ورنہ اس کا ’’عدل‘‘ قائم نہیں رہے گا۔ نیز اس لئے کہ ان کے نزدیک بھی جہمیہ کی طرح صفات باری کا مفہوم ’’مفہوم ذات‘‘ پر کوئی زائد امر نہیں ہے۔ بلکہ اس کی صفات عین اس کی ذات ہیں ۔ ورنہ تعدد قدما لازم آئے گا اور ’’توحید‘‘ قائم نہیں رہے گی۔ (اعاذنا اللّٰہ منہ) حل اشکال:۔ گو ظاہر میں یہ بڑی باریک بینی ہے۔ لیکن حقیقت میں انہوں نے اس میں نمایاں ٹھوکر کھائی ہے۔ کیونکہ جب کہا گیا کہ فلاں امر ذات برحق پر واجب ہے۔ تو کوئی اس کا واجب کرنے والا بھی چاہئے پس اگر واجب کرنے والا کوئی غیر ہے تو یہ بالبد اہت باطل ہے کیونکہ خدا پر کوئی حاکم نہیں اور اگر خود خدا تعالی واجب کرنے والا ہے تو اس کی صورت یہی ہے کہ بعض امور میں اس نے وعدہ کیا ہے کہ میں ایسا ایسا کروں گا۔ اور وعدہ کرنا یا نہ کرنا خدا کے اختیار میں تھا۔ کسی کے اجبار ایجاب سے وعدہ نہیں کیا۔ پس اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس نے کوئی امر خود اپنے اختیار سے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ جزا و سزا بھی اسی باب سے ہیں ۔ ورنہ بندوں کی طرف سے یا نفس اعمال کی وجہ سے ایجاب کی کوئی وجہ نہیں ۔ کیونکہ ہماری ساری طاعتیں اس کی نعمتوں کے شکریہ میں ہیں ۔ لہذا اجرت ما بعد لینے کا کوئی حق نہیں اس کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ مطیع کو ثواب دینے میں تو ایفائے وعدہ ایک امر محمود ہے اور اس کی خلاف ورزی ایک عیب ہے جس سے شان و ذات خداوندی پاک ہے لیکن عاصی کو عذاب کرنا لازم نہیں (اگرچہ واقع میں یہی ہو گا کہ عذاب کرے گا) کیونکہ عدل کے خلاف ظلم ہے اور ظلم کسی دوسرے کے حق میں بغیر اجازت اس کی تصرف کرنے کو کہتے ہیں اور خدا تعالی کا
Flag Counter