Maktaba Wahhabi

157 - 484
رجال اور اسانید کے ہیں جو دفتر نہ تھا ان کا احساں یہ اک اہل دیں پر گواہ ان کی آزادگی کے ہیں یکسر وہ تھے اس میں ہر قوم و ملت کے رہبر لبرٹی میں جو آج فائق ہیں سب سے بتائیں کہ لبرل بنے ہیں وہ کب سے مولانا حالی مرحوم کی یہ توصیف اس زمانے کے متعلق ہے۔ جب اسلامی سلطنت نہایت عروج پر تھی۔ اس کا پھریرا چار اطراف عالم میں لہرا رہا تھا۔ اس کے اقبال کا ہما سارے جہان پر سایہ افگن تھا۔ ترقی و تہذیب اس کی آستان بوسی سے فخر حاصل کرتی تھی اور تمدن و سیاست خوشامد سے اس کے پاؤں پڑتے تھے۔ حتی کہ دنیا کے بڑے بڑے جابر اور گردن کش بادشاہ سر سے فرعونیت و جبروت کی ہوا نکال کر اس کی حلقہ بگوشی و غلامی کو مایہ ناز و سرمایہ افتخار سمجھ چکے تھے اسی واسطے کہا گیا ہے۔ع لقب سلطان ہے غلامان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ایشیا‘ یورپ اور افریقہ کے اکثر ممالک ان کے زیر نگیں تھے؎ چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہیں سارا جہاں ہمارا پس اہل حدیث کو باعتبار زمانہ کے نیا فرقہ کہنا ایسا ہی ہے جیسا کہ بلحاظ اصول و مسائل کے اسے جدید قرار دینا۔ اگر ہم اہل حدیث کا ذکر کتب حدیث میں دکھائیں ۔ تو شائد کسی کو وہم ہو کہ ان کتابوں میں ان کا ذکر کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ یہ کتابیں تو محدثین رحمہ اللہ ہی کی تصنیف ہیں ۔ اس لئے ہم ان کے علاوہ دیگر فنون کی کتب کے حوالے بھی پیش کریں گے۔ علم حدیث کی کتابوں کے حوالے اس لئے مفید ہیں کہ زمانہ اسلام میں قرآن مجید کے بعد سب سے پہلے جس علم کی تدوین ہوئی وہ وہی ہے جو قرآن کریم کا توام ہے یعنی فن حدیث چنانچہ یہ امر تاریخی حوالوں سے اس فصل سے ظاہر ہو گا جس میں کتابت و تدوین حدیث کا بیان ہو گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
Flag Counter