تنبیہ:۔ بعض اشخاص جن کو احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص انس و شغف نہیں ۔ اس روایت کی نسبت نہایت تعجب و استبعاد سے کہا کرتے ہیں کہ حدیث کو یہ رتبہ قضا ان روایت پرست اہل حدیثوں نے دے دیا ہے اور کتاب اللہ کی بے قدری کر دی ہے۔ ایسے نازک خیال‘ خوش فہم اصحاب آیت بالا کے لفظ قضیت کو دیکھ کر اپنے تعجب کو دور کر دیں کہ یہ منصب قضا خود خدائے تعالی کا عطا کردہ ہے نہ کہ ہمارا خود ساختہ اللھم صل علی سیدنا محمد والہ واصحابہ وبارک وسلم ان آیات سے صاف واضح ہو گیا ہے کہ زمان برکت نشان میں سوائے وحی آسمانی کے شریعت کا مرجع کچھ نہ تھا اور یہ کسی طرح بھی تصور میں نہیں آسکتا کہ رسول برحق کے ہوتے اس کے ساتھ کسی دیگر کا اتباع بھی واجب ہو۔
وحی آسمانی کی دو قسمیں ہیں ۔ جلی اور خفی۔ جلی تو قران مجید ہے۔ جو جبرئیل فرشتے کی معرفت لفظاً نازل ہوا اور خفی حدیث پاک ہے جسے خدا تعالیٰ نے آیت بالا میں بِمَا أَرَاكَ اللَّهُسے تعبیر کیا اور اس کی بنا پر آپ کی قضا کو قطعی و نافذ قرار دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ فیصلے کتب حدث میں معتبر سندوں سے مندرج ہیں اور علاوہ بریں ہر زمانے میں عملی طور پر شائع رہے ہیں ۔ پس ہمارا یہ کہنا کہ شریعت کا مدار صرف قرآن اور حدیث پر ہے بالکل درست ہے۔
عصر صحابہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
عہد سعادت مہد کے بعد عصر صحابہ ہے۔ اس میں خصوصاً خلافت راشدہ میں برابر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کی روش قائم رہی اور اس میں فرق نہیں آیا۔ صرف اتباع ’’کتاب و سنت‘‘ سے واسطہ تھا۔ ان کے مقابلہ میں کسی دوسری چیز کی کچھ بھی حقیقت نہ تھی۔ اس فصل کو ہم ذرا تفصیل سے بیان کرنا چاہتے ہیں کیونکہ صحابہ سابقین امت ہیں ۔ ان کی روش پچھلی امت سے زیادہ قابل اعتبار ہے بلکہ ان کے لئے قابل اقتدا ہونی چاہئے۔
تفصیل ذیل کے واقعات کی صورت میں ملاحظہ ہو۔
|