Maktaba Wahhabi

208 - 484
اس کی حقانیت کا اعتراف و اقرار ضروری نہیں ہوتا۔ چنانچہ مقدمات عدالت میں ماتحت عدالتوں کی اپیل میں یہ عنوان لکھا جاتا ہے اپیل بنا راضی حکم فلاں مجسٹریٹ یا منصف درجہ فلاں ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کا اثر صرف تعمیل پر نہیں بلکہ یہاں زبان شکایت بھی بند رکھنے کا حکم ہے۔ بلکہ دل میں شکایت کا خیال بھی جما ناگناہ عظیم ہے۔ آپ کا فیصلہ آخری اور قطعی ہے جس کی نہ تو کہیں اپیل ہو سکتی ہے اور نہ اس پر نظرثانی کی درخواست روا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی نسبت خود خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ (نساء پ۵) (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے یہ کتاب (قرآن) آپ کی طرف حق کے ساتھ اتاری ہے کہ آپ لوگوں میں اس کے موافق فیصلہ کریں جو آپ کو خدا دکھا دے (سمجھا دے) اس آیت کے ذیل میں امام رازی نے فرمایا۔ قال المحققون ھذہ الایۃ تدل علی انہ علیہ الصلوۃ والسلام ماکان یحکم الا بالوحی والنص (تفسیر کبیر جلد ثالث ۳۱۷) ’’محققین نے کہا ہے کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سوائے وحی اور نص کے فیصلہ نہیں کرتے تھے۔‘‘ اور چونکہ آیت بالا یعنی فلا وربک میں جسے ہم اصل دلیل میں لا کر بیان کر رہے ہیں لفظ قضیت فرمایا ہے۔ لہٰذا ان دونوں مذکورہ بالا آیتوں کو ملا کر معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے قاضی ہیں جیسا کہ سنن دارمی ص۷۷ میں امام یحییٰ بن کثیر سے مروی ہے کہ قال السنۃ قاضیۃ علی کتاب اللّٰہ (ص۷۷) ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کی قاضی ہے۔
Flag Counter