Maktaba Wahhabi

158 - 484
وجہ تسمیہ اہل حدیث:۔ اس موقعہ پر یہ بات خاص طور پر ملحوظ رہے۔ کہ چونکہ نام کا تقرر تمیز و تعارف کے لئے ہوتا ہے اور صدر اول و قرون ثانی میں یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ و تابعین رحمہ اللہ میں اختلاف کی بنا پر مذاہب کی بنیاد نہیں پڑی تھی اور امت کو مختلف فرقوں میں تقسیم کرنے کی حدیں نہیں کھینچی گئی تھیں بلکہ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقید تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی دیگر شخص کی شخصیت کو شریعت میں داخل نہیں کیا جاتا تھا۔ غرض کوئی دوسرا فرقہ تھا ہی نہیں اس لئے کسی سے متمیز ہونے کے لئے الگ نام کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ حتی کہ جب مجتہدین کے اقوال کو حجت گردانا گیا۔ اور مختلف مذاہب کی بنیادیں قائم ہو گئیں تو جن لوگوں نے طرز اول اور زمانہ سابق کی ہر طرح کسی شخصیت کو دین میں داخل کرنے کے بغیر صرف کتاب و سنت سے دین حاصل کرنا اپنا دستور رکھا اور راویوں کی روایت اور ان کی درایت میں فرق کیا اور اپنے عمل و اعتقاد کی بنا صرف سمعیات (قرآن و حدیث) پر رکھی۔ وہ اہل حدیث‘ اصحاب حدیث‘ اہل اثر اور محدثین کہلائے۔ چنانچہ یہ بات حجتہ اللہ کی طویل عبارت میں پہلے گذر چکی ہے اور باقی سب یا تو اپنے اپنے امام و مقتدا کی طرف منسوب ہوئے۔ جس کی شخصیت کو انہوں نے دوسرے فرقوں میں حد فاصل قرار دیا تھا اور اس کے مجتہدات کو بجائے خود اصل و سند مانا تھا۔ مثلا حنفی و شافعی باعتبار امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہونے کے۔ اور یا اس مسئلے کی طرف منسوب ہوئے جس میں انہوں نے اصحاب حدیث سے اختلاف کیا۔ مثلاً قدریہ بسبب تقدیر کے منکر ہونے کے اور جبر یہ بلحاظ جبر محض کے قائل ہونے کے اور مرجیہ بوجہ اعمال کو ایمان سے جدا کرنے اور محض ایمان پر امید نجات دلانے کے۔ یہ اس شبہ کا جواب ہے جو بعض ناواقف پیش کیا کرتے ہیں کہ اہل حدیث اگر قدیم ہیں تو یہ لقب زمان صحابہ و تابعین میں کیوں مشہور نہیں ہوا۔ اس اعتقادی و فروعی اختلاف سے پیشتر عصر صحابہ رضی اللہ عنہ میں بھی ایک عظیم اختلاف ہوا تھا جس کی بنا امور سیاست پر تھی۔ لیکن بعد کو وہ بھی مذہبی و اعتقادی اختلاف بن
Flag Counter